2
0
Saturday 18 Feb 2012 10:45

احمدی نژاد سادگی کا نمونہ، پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس

احمدی نژاد سادگی کا نمونہ، پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس
اسلام ٹائمز۔ جیو کے پروگرام ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں میزبان نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد سے بغلگیر ہونے والے پاکستانی رہنما ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، وہ قومی زبان فارسی میں بات کرتے ہیں، ایرانی ثقافت کی چلتی پھرتی تصویر اور سادگی کا نمونہ ہیں جبکہ پاکستان میں حالت اس کے بالکل برعکس اور قابل رحم ہے۔ کامران خان نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے سربراہان نے جمعہ کو عہد و پیمان کئے کہ ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور خطے کے مسائل خطے کے اندر حل کریں گے، جمعہ کے مذاکرات کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ پاکستان اور ایران تعلقات کے نئے دور کا آغا ز کرتے نظر آئے اور اس مقصد کے لئے ایران کے صدر پاکستان میں موجود ہیں۔
 
کامران خان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ خطے اور پاکستان کے مسائل کے حل اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اس خطے کے ممالک سے تعلقات کو آگے بڑھائے، اور خاص طور پر ایران، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ ، اس سلسلے میں ایرانی صدر نے صدر زرداری اور ایرانی وفد نے وزیر اعظم گیلانی سے ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں میں سیاسی قیادت کے ساتھ عسکری قیادت بھی موجود رہی، اس موقع پر ایران کو یہ پیغام دیا گیا پاکستان اپنا مسئلہ سمجھتا ہے اور ایران کے ساتھ اس تناظر میں تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

کامران خان نے کہا کہ ایران کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو پاکستان ایران کے ساتھ ہو گا اور دشمنوں کو پاکستان کی جانب سے کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی، اس سلسلے میں صدر زرداری نے کہا کہ چاہے کتنا ہی بیرونی دباؤ آئے ایران کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا جائے گا، ایرانی حکام نے کہا کہ پاک ایران تجارتی حجم کو چند ماہ میں 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے، اسی قسم کے خیالات کا اظہار ایرانی صدر نے بھی کیا جو کہ فارسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ 

کامران خان نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ صدر احمدی نژاد اپنے ملک کی قومی زبان فارسی میں بات کرتے ہیں بلکہ وہ ایرانی ثقافت کی چلتی پھرتی تصویر بھی نظر آتے ہیں، وہ سادگی کے لئے ایک مثال ہیں، خاص طور پاکستانی رہنماؤں کے لئے، صدر احمدی نژاد سے بغل گیر تو ضرور ہوئے مگر پاکستانی رہنماؤں کو صدر احمدی نژاد سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے، انہوں نے سادگی اور پبلک سروس کی مثال قائم کی ہے، ان کا رہن سہن، ان کی زندگی، ایک عام ایرانی سے بڑھ کر نہیں ہے، وہ سادگی کی بڑی مثالی تصویر ہیں، کس طرح قومی خزانے کے ضیاع کو بچایا جاتا ہے، کس طرح سربراہان عوامی خدمت کر رہے ہوتے ہیں، احمدی نژاد اس کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔
 
ان کے بارے میں ہماری قوم اور رہنماؤں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ صدر احمدی نژاد نے عہدے پر فائز ہوتے ہی اپنے تمام اثاثے خود ظاہر کر دیئے تھے، ان کے پاس1977ء ماڈل کی ایک کار اور ایران کے سستے ترین علاقے میں وراثت میں ملنے والا مکان اور بینک اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہونے کے برابر تھے، صدر کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل بطور یونیورسٹی لیکچرر ان کو ڈھائی سو ڈالر تنخواہ ملتی تھی، جب وہ صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے خاندانی مکان میں ہی رہنے کو ترجیح دی، جب ان سے کہا گیا کہ سکیورٹی کے حوالے سے وہ صدارتی ہاؤس میں منتقل ہو جائیں تو انہوں نے ایوان صدر منتقل ہوتے ہی تمام قیمتی قالین بیچ دیئے اور بآسانی صاف ہونے والے سستے قالین کو ترجیح دی، قالین بیچنے سے ملنے والے پیسے انہوں نے چیرٹی کر دئیے۔
 
ایوان صدر میں صدر کے لئے مختص پر تعیش کمرے کو بند کرا دیا اور ایک عام سے کمرے میں لکڑی کی دو کرسیوں سے ذمہ داری کا آغاز کر دیا، ایوان صدر میں انہوں نے سربراہان مملکت اور دیگر اعلٰی حکام کے لئے انہوں نے پر تعیش استقبالیہ لاؤنج کو بھی ختم کر دیا، صدر مملکت کی مصروفیات کے فوٹو سیشن، دوسرے شہروں کے دوروں میں بے جا اخراجات اور دیگر معاملات پر پابندی لگا دی، انہوں نے اپنے وزراء سے حلف لیا، اس میں انہوں نے کہا کہ وہ سادگی اپنائیں گے اور ذاتی اور رشتہ داروں کے طرزعمل پر نظر رکھیں گے، تاکہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو سکے، وہ اپنے وزراء سے ملاقات کے لئے خاص اہتمام نہیں کرتے اور ہر وقت ان کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔
 
ایوان صدر کے پروٹوکول میں خاطر خواہ کمی اور پرسنل سیکریٹری کے عہدے کو ختم کر دیا، تاکہ وزراء کسی مشکل کے بغیر ان سے مل سکیں، کابینہ کے وزراء کی ایوان صدر آمد پر انہیں ہر بار ایک دستاویز پیش کی جاتی ہے جس میں سادہ طرز عمل اپنانے کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے، کامران خان نے بتایا کہ صدر مملکت کی حیثیت سے وہ اپنی تنخواہ نہیں لیتے، سمجھتے ہیں کہ انکا کام خزانے کی حفاطت کرنا ہے، ایوان صدر کے کچن میں مرغن کھانوں سے اجتناب کرتے ہیں، اور ہر وقت ایک بیگ اپنے ساتھ رکھتے ہیں جس میں اہلیہ کے تیار کردہ سادہ سے سیڈویچ ہوتے ہیں جو وہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں، ایرانی صدر ایوان صدر میں صفائی کرنے والے اسٹاف کے ساتھ خود شامل ہو جاتا ہے۔

صدر کے لئے مختص طیارے کو ایرانی صدر نے کارگو طیارے میں تبدیل کر دیا ہے اور خود عمومی طور پر اکانونی کلاس میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں، آرام دہ بستر کے بجائے زمین پر سوتے ہیں، ہوٹل کے کمرے میں بکنگ کے وقت بھی ایسے کمرے کو ترجیح دیتے ہیں جس میں بستر نہ ہو، مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے سب سے پہلی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے وہ ترجیح دیتے ہیں کہ عام لوگوں کے ساتھ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوں، سفر کے وقت نماز کا وقت ہونے پر سڑک کنارے عام سا قالین بچھا کر نماز ادا کر لیتے ہیں۔ صاحبزادے کی شادی میں کوئی اسراف نہیں کیا اور سادہ تقریب منعقد کی، جس میں مہمانوں کی تواضع پھلوں سے کی گئی اور یہ سادگی کی مرکب تصویر تھی۔
خبر کا کوڈ : 138609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Allah ho Akbar
Allah ho Akbar
ہماری پیشکش