0
Monday 12 Mar 2012 13:15

اتحادیوں کا طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے افغانستان پر چڑھ دوڑنا ہماری غلطی تھی، ولیم پاٹے

اتحادیوں کا طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے افغانستان پر چڑھ دوڑنا ہماری غلطی تھی، ولیم پاٹے
اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں ہماری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم نے خود کو فاتح تصور کر لیا تھا، افغانستان میں برطانوی سفیر سر ولیم پاٹے نے گذشتہ روز برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ باتیں کہیں، انھوں نے اپنا سفارتی کیریئر ختم ہونے سے صرف ۲ ہفتے قبل گذشتہ ایک عشرے کے دوران خود کو محسوس ہونے والی غلطیوں اور ناکامیوں کے بارے میں کھل کر بات کی، انھوں نے کہا کہ ۲۰۰۳ء میں عراق پر فوج کشی اور اس کے دو سال سے بھی کم عرصے میں امریکہ کے ساتھ اس کے آسٹریلیا اور فرانس سمیت دیگر اتحادیوں کا طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے افغانستان پر چڑھ دوڑنا ہماری غلطی تھی۔ 

سنڈے ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ دونوں نے غلط طور پر یہ تصور کر لیا کہ انھوں نے جنگ جیت لی ہے اور طالبان فرار ہو گئے ہیں، لیکن اس سے طویل المیعاد مسائل پیدا ہوئے کئی سال تک مواقع ضائع کئے گئے کیونکہ ہماری توجہ افغانستان کی بجائے عراق پر مرکوز تھی اس طرح طالبان کے خلا کو پر کرنے کیلئے افغان فوجیوں کو تربیت دینے اور انھیں مناسب اسلحہ اور سازو سامان سے لیس کرنے کا موقع ضائع ہوگیا، اور طالبان کو واپس آنے کاموقع مل گیا، ہماری توجہ پوری طرح عراق پر مرکوز تھی ہم نے یہ سوچ کر کہ طالبان فرار ہو گئے ہیں سب کچھ افغان حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ معاملات سے اپنے طورپر نمٹ لیں، اور ہم نے بہت تیزی سے اپنی توجہ عراق پر مرکوز کر لی۔ 

انھوں نے کہا کہ عام طور پر آپ اتنی جلدی تاریخ رقم نہیں کر سکتے لیکن میں واضح کردوں کہ ہم اس بات کا انتظار نہیں کر سکتے تھے کہ تاریخ اپنا فیصلہ دے، انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی سیکورٹی اور اسسٹنس فورس ایساف کی موجودگی افغانستان کے استحکام میں رکاوٹ بن گئی، جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا غیر ملکی فوجیں اب ایک مسئلہ ہیں؟ سر ولیم پاٹے نے کہا کہ ہو سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ افغان غیر ملکیوں کے ساتھ کبھی بھی خود کو بہتر محسوس نہیں کرتے اور پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے جب آپ خواہ اپنے ارادوں کے بارے میں کتنی وضاحت کیوں نہ کریں اور یہ واضح نہ کریں کہ غیر ملکی فوج اقوام متحدہ کی اجازت سے جس میں خود افغانستان کی مرضی بھی شامل تھی یہاں آئی ہے، اور ایساف قابض فوج نہیں ہے آپ ناپسندیدہ ہی قرار پائیں گے، لیکن اب ایساف واپسی کے مرحلے میں ہے اور ۲۰۱۴ء میں جب فوجوں کی واپسی مکمل ہو جائے گی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ افغان اپنے ملک افغانستان کی سلامتی کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ 

اس وقت جب افغانستان کی سڑکوں پر خود افغان پولیس اور فوج موجود ہو گی تو طالبان کیلئے یہ کہنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف لڑ رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں کے دوران برطانوی اور ایساف کی فوجوں کا کردار تبدیل ہو گیا ہے اور اب وہ طالبان کو ہلاک کرنے کے بجائے وقت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ لیبر حکومت کی سابقہ ناکامیوں پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مغربی ملکوں نے افغانستان کی ترقی میں اپنی دلچسپی کم نہیں کی تو اس ملک کا مستقبل تابناک ہے، انھوں نے کہا کہ افغانستان ابھی کئی سال تک مسائل کی آماجگاہ رہے گا لیکن یہ مسائل بہتری کی جانب ہوں گے، انھوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب ہمیں یہاں سے جانا ہوگا، افغان خود آپس میں لڑ رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات پر تیار نہیں ہو رہے ہیں ان کے اندرونی اختلافات ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہی ہو گا لیکن ایسا ممکن ہے جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ افغان تمام معاملات کو درست کر لیں۔ 

افغانستان پر روس کے قبضے کے دوران ہونے والی غلطیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ۱۹۹۰ء میں افغان نیشنل آرمی روس کے چلے جانے کی وجہ سے الگ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کاسبب یہ تھا کہ انھوں نے ادائیگیاں بند کر دی تھیں جس کے بعد جنگجو کمانڈر آ گئے اور آپس میں لڑنے لگے، فوجوں کی واپسی کا نیا پلان روس کے قبضے کے بعد کی صورتحال سے سبق حاصل کرکے تیار کیا گیا ہے ، انھوں نے کہا کہ افغان نیشنل آرمی ایک بڑی فوج ہے لیکن اس میں معیار کی کمی ہے، اس لئے اب ہمیں ان کے معیار پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ ہمارے پاس نفری موجود ہے انھوں نے کہا کہ آپ نے ہماری حکمت عملی کو لاحق سب سے بڑے خطرے کے بارے میں سوال کیا ہے خطرہ یہ ہے کہ اگر مغربی ملکوں نے کسی اور طرف اپنی توجہ مبذول کرلی یا بین الاقوامی برادری رقم دینے کو تیار نہیں ہوئی تو خطرات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن افغانستان کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل غیر مشروط امداد کی توقع نہیں کرنی چاہئے، ضروت اس بات کی ہے کہ افغانستان جمہوری اداروں کومستحکم کرنے کی کوششیں جاری رکھے، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور حقوق انسانی کی کوئی خلاف ورزی نہ کرے تو پھر اگلے ۱۰ سال تک یہاں رقم کا ڈھیر لگا رہے گا۔
 
انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ توقع نہیں کہ افغانستان سے کرپشن ختم ہو جائے گی لیکن اس میں کچھ بہتری کی توقع کر سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ افغان سیکورٹی فورس پر سالانہ ۲۔۲ بلین پونڈ کے قریب خرچ ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں فیصلے اس سال کے اواخر میں شکاگو اور ٹوکیو میں نیٹو کی سربراہ کانفرنسوں میں کئے جائیں گے، اور بین الاقوامی برادری اس ملک کی ترقی کیلئے مستقبل میں فنڈ کی فراہمی کے وعدے کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس ملک میں امن قائم ہونا ہے تو طالبان کو متحد ہونا اور مفاہمت کی راہ اختیار کرنا ہوگی انھوں نے کہا کہ اگر طالبان ایک سیاسی پارٹی بن کر ابھرتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا، طالبان اگر سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور حکومت میں جگہ بناتے ہیں یا ضلعی سطح پر عہدے حاصل کرتے ہیں تو اس پر کسی کواعتراض نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 145002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش