0
Thursday 7 Jun 2012 01:47

کشمیری پولیس کا جھڑپوں اور شہادتوں کی کل تعداد بتانے سے انکار

کشمیری پولیس کا جھڑپوں اور شہادتوں کی کل تعداد بتانے سے انکار
اسلام ٹائمز۔ کشمیری پولیس نے جھڑپوں اور شہادتوں کی کل تعداد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست دائر کرنے والے مقامی حقوق انسانی کارکن سے ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن پولیس ہیڈ کواٹر سے 30 روز کے اندر رجوع کرنے کو کہا ہے، جبکہ پولیس نے گذشتہ 23 برسوں کے دوران ہونے والی جھڑپوں سے متعلق تفصیل فراہم کرنے کو ملکی سالمیت اور امن و امان کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے، ادھر درخواست مسترد کئے جانے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے سرگرم حقوق انسانی کارکن خرم پرویز نے کہا ہے کہ جن کارروائیوں کو ملکی سلامتی و سالمیت کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے اب ان کارروائیوں سے متعلق معلومات کو ملکی سالمیت، سیکورٹی اور امن و امان کیلئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی تنظیموں کے پلیٹ فارم کولیشن آف سیول سوسائٹی کے کارڈی نیٹر اور مقامی حقوق انسانی کارکن خرم پرویز نے 1989ء سے 2012ء تک جموں و کشمیر میں جنگجوﺅں، مختلف بھارتی فورسز اور ایجنسیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور اس دوران ہونے والی ہلاکتوں وغیرہ کی مکمل تفصیل حاصل کرنے کیلئے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت5  مئی 2012ء کو جموں و کشمیر پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں ایک درخواست جمع کرائی تھی۔
 
خرم پرویز نے بتایا کہ ان کی دائر کردہ درخواست کے جواب میں انہیں 22 مئی 2012ء کو پبلک انفارمیشن آفیسر پی ایچ کیو سرینگر اے آئی جی شبیر احمد ملک کی طرف سے جواب موصول ہوا، خرم پرویز کے مطابق پی آئی او پولیس ہیڈ کوارٹر سرینگر نے اپنے جواب میں آر ٹی آئی ایکٹ 2009ء کے سیکشن 8 (1) اے کا حوالہ دیتے ہوئے جھڑپوں سے متعلق کوئی بھی تفصیل یا معلومات فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی، تاہم اے آئی جی نے خرم پرویز کو یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ وہ (خرم ) حق اطلاع قانون 2009ء کے سیکشن 16 (1) کے تحت اپنی دائر کردہ درخواست کے تحت معلومات حاصل کرنے کیلئے ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن پی ایچ کیو جے اینڈ کے آئی پی ایس آفیسر راجندر پرساد رسوترا سے 30دنوں کے اندر رجوع کرسکتے ہیں۔ واضح رہے جے اینڈ کے آر ٹی آئی ایکٹ 2009کے سیکشن 8(1)aکے تحت کوئی بھی ایسی معلومات فراہم کرنے کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے جس کو افشاء یا ظاہر کرنے سے امن وامان اور سلامتی یا سالمیت کو کسی بھی طرح کا خطرہ پہنچنے کا احتمال ہو۔
خبر کا کوڈ : 168792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش