0
Friday 22 Jun 2012 14:45

پاکستان میں سفارتکاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کا الزام

پاکستان میں سفارتکاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کا الزام
اسلام ٹائمز۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام کی طرف سے پاکستان میں تعینات امریکی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ان کا کام بہت حد تک متاثر ہو رہا ہے۔ امریکی کانگریس کی طرف سے پاک امریکہ تعلقات پر ساٹھ صفحات پر مشتمل رپورٹ امریکی محکمہ خارجہ کے فارن پریس سینٹر کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام کی دانستہ طور پر اور مربوط منصوبے کے تحت کی جانے والی مداخلت ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملے اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے، جس میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے، کے بعد بہت بڑھ گئی ہے۔ مشن کے کام میں رکاوٹ کبھی ویزا دینے میں دیر، تعمیراتی کاموں میں امداد میں رکاوٹ، اور اہلکاروں اور کانٹریکٹرز کی جاسوسی جیسے طریقوں سے پیدا کی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلے کو پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھائے۔ امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی امریکہ پاکستان تعلقات پر تحقیقی رپورٹ میں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شہری و سلامتی اداروں کی ہزاروں جانوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے پاکستان میں سول حکومت کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے وہاں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کافی حد تک منفی سمت میں چل رہے ہیں۔

امریکی کانگریس کے تحقیق کاروں نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے اندر شدت پسند تنظیم القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری اور طالبان کے سربراہ ملا عمر سمیت کئی انتہائی مطلوبہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ایمن الظواہری کی پاکستان میں موجودگی کا کئی پاکستانی حکام کو پہلے سے ہی علم ہے، امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کانگریس ریسرچ سروس یا سی آر ایس کی طرف سے شائع کی گئی اس رپورٹ کے مصنف امریکی کانگریس کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر کے ایلن کرونسٹاڈٹ ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات پر امریکی کانگرس کے اس تحقیقی رپورٹ کے آغاز میں واضح طور کہا گیا ہے کہ ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم پاکستان امریکہ کے انتہائی مفاد میں ہے، نیز یہ بھی کہ پاک امریکہ تعلقات کی مضبوطی کیلئے پاکستان میں ایک مضبوط سول حکومت کی حمایت ضروری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے جس میں اسکے سینتیس ہزار شہریوں، چھ ہزار تین سو سیکورٹی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں اور پاکستان کو اٹھہتر بلین ڈالر کا معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

امریکی کانگریس کی رپورٹ میں امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے مرکز کی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دو ہزار گیارہ میں پاکستان میں ہر ہفتے اوسطاً چھبیس خود کش حملے ہوئے جسکی اس سے قبل ایسی مثالیں فقط عراق اور افغانستان میں ملتی ہیں تاہم رپورٹ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے دونوں ملکوں کی طرف سے سال دو ہزار گیارہ اور رواں سال تک کے پالیسی فیصلوں اور واقعات کا تفصیلی سے ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے تعلقات میں بگاڑ کا آغاز ریمنڈ ڈیوس سے ہوا جو پھر اسامہ بن لادن کے پاکستان میں ملنے اور پھر ان کی ہلاکت سے لیکر سلالہ چوکی پر نیٹو حملے اور پھر نیٹو رسد سپلائی کی معطلی اور اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ملنے والی سزا تک گیا۔ رپورٹ میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی وزیر شہباز بھٹی اور صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے واقعات اور میمو گیٹ، اور کانگریس میں بلوچستان پر بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

امریکی کانگریس مین ڈان روبا ہارکر کی طرف سے بلوچستان پر بلائی جانے والی عوامی سماعت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے اوباما انتظامیہ نے خود کو پرے رکھا اور واضع کیا کہ وہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کی حمایت نہیں کرتی۔ سلالہ چوکی پر نیٹو کے حملے کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں یہ واقعہ تب پیش آیا جب اس سے پہلے پاکستانی چوکی سے نیٹو فوجیوں پر فائرنگ کے دو واقعات پیش آئے۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ نیٹو افواج کی کارروائی قواعد کے تحت تھی۔

رپورٹ میں سلالہ چوکی پر حملے کے بعد امریکہ پاکستان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو جانے کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ حال ہی میں شکاگو میں افغانستان پر ہونے والی کانفرنس کے موقع پر میڈیا رپورٹوں میں پاکستان کی طرف سے پانچ ہزار ڈالر فی ٹرک مانگنے اور امریکہ سے معافی کا مطالبہ کرنے پر بضد ہونے سے پاکستان سفارتی تنہا ئی کا شکار ہو گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 173286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش