0
Thursday 28 Jun 2012 16:02

قرآن و حدیث اور حیات طیبہ ہی علم کے اصل سر چشمے ہیں، سید منورحسن

قرآن و حدیث اور حیات طیبہ ہی علم کے اصل سر چشمے ہیں، سید منورحسن
اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ مغربی تہذیب نے شکست کے باوجود اپنے فلسفے اور نظام کو لوگوں میں اتنا مقبول بنا دیا کہ مسلمانوں نے بھی انہی کی تہذیب اختیار کر لی جس کے نتیجے میں معاشرے میں کالے انگریز پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ علمی محاذ پر کتاب ہی اصل ہتھیار ہے لیکن، کتاب سے ہمارا رشتہ کمزور ہوچکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے بانی و مفکر اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی یاد میں ادارہ نورحق میں قائم کیے جانے والے مکتبہ نورحق کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ افتتاحی تقریب سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی،ڈپٹی سیکریٹری علی محمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

سید منورحسن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مکتبے کا قیام خوش آئند ہے، جماعت اسلامی ایک علمی تحریک ہے، ذہنوں میں انقلاب اور مقصد سے ہم آہنگی کے لیے علم کے سرچشموں سے سیرابی ضروری ہے، ہمارے لیے قرآن و حدیث اور حیات طیبہ ہی علم کے اصل سر چشمے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری امت کو ایک چیلنج درپیش ہے، کہ کس طرح ذہنی و فکری و نظریاتی غلامی سے نبرد آزما ہواجائے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب نے شکست کے باوجود اپنے فلسفے اور نظام کو لوگوں میں اتنا مقبول بنا دیا کہ مسلمانوں نے بھی انہی کی تہذیب اختیار کر لی جس کے نتیجے میں معاشرے میں کالے انگریز پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ انگریزوں کو گئے ہوئے 65 سال ہوگئے مگر حکمرانی اب بھی انہی کی ہے کیونکہ انہوں نے غلامی کا طوق ہمارے دل و دماغ میں پیوست کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج اسلامی تحریکیں اپنے نظریے کی بنیاد پر زندہ ہیں، مولانا مودودی کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کی صحیح تفسیر کو از سر نو آسان الفاظ میں پیش کیا۔ وہ دور نظاموں کے کشمکش کا دور تھامولانا مودودی نے اسلام کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔ کشمکش کی یہ جنگ مولانا مودودی اسی وقت جیت گئے تھے۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ علم سے وابستگی کے بغیر عمل میں اضافہ نہیں ہو سکتا،جماعت اسلامی کا تشخص ہی لٹریچر ہے، مکتبے کے قیام کا مقصد اہلِ کراچی کا قرآن و حدیث اور کتابوں سے تعلق گہرا کرنا ہے،ہمارا علم صرف معلومات کے لیے نہیں بلکہ عمل کے لیے ہے اور عمل کے بعد دعوت کا فریضہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 174870
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش