0
Wednesday 12 Sep 2012 08:55

لاپتہ افراد کا معاملہ خود حل کریں!

لاپتہ افراد کا معاملہ خود حل کریں!
ملک کے مختلف حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کے متعلق حقائق کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کے ماہرین کا ایک وفد اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔ وفد، جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے چار رکنی ورکنگ گروپ پر مشتمل ہے، کے پروگرام میں وفاقی دارالحکومت میں قیام کے دوران صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور دوسرے اعلٰی حکام کے علاوہ صوبائی وزرائے اعلٰی سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد کو سوموار کے روز گم شدہ افراد کی تلاش کے طریقہ کار، بازیاب کرائے گئے افراد اور اس حوالے سے پاکستان کے آئین و قانون کے تقاضوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ 

اپنے 8 روزہ دورے کے دوران وفد پاکستان میں انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اور عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کرے گا اور دورے کے اختتام پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے اور اس سلسلے میں بعض حلقے سکیورٹی اداروں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوں تو خیبر پختونخوا اور کراچی میں بھی پراسرار انداز میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں اور وہاں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر بلوچستان میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔
 
مزاحمتی تنظیموں اور قوم پرست سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ خفیہ ایجنسیاں دہشتگردی میں ملوث کالعدم تنظیموں سے وابستگی کے شبہ میں لوگوں کو راہ چلتے یا ان کے گھروں سے اٹھا کر عقوبت خانوں میں لے جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں بعض ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ مزاحمتی تحریک کے لیڈر لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں بیان کرتے ہیں جبکہ حکومت اور سرکاری اداروں کے نزدیک ایسے افراد کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے کئی بازیاب بھی کرائے جاچکے ہیں۔ 

لاپتہ افراد کی بازیابی کے قومی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تصدیق کی ہے کہ اقوام متحدہ کے وفد نے 86 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی ہے۔ تاہم ان میں سے بیشتر کے کوائف مکمل نہیں۔ اس فہرست میں 1990ء میں کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کے بارے میں تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ مختلف مقدمات میں اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو مطلوب تھا اور اس وقت لاہور پولیس کی حراست میں ہے۔
 
بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے بارے میں مزاحمتی گروپوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد و شمار غیر مصدقہ اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ لاپتہ افراد ظاہر کئے جانے والے بہت سے افراد افغانستان میں قائم فراری کیمپوں میں دہشتگردی کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، یا صوبے کے اندر ٹریننگ کیمپوں اور پہاڑی ٹھکانوں میں موجود ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان میں لوگ بڑی تعداد میں لاپتہ ہیں اور لواحقین ان کی بازیابی کیلئے در بدر کی خاک چھان رہے ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ علحیدگی پسند قوتوں کو ہو رہا ہے۔
 
عدالت اعظمٰی نے بطور خاص اس کا نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں خصوصی بینچ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کر رہا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ غائب کئے جانے والے افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اس نے نہ صرف ملک و صوبے میں بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے وفد کی پاکستان آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ 

اگرچہ اس وفد کو حکومت نے خود بلایا ہے، مگر اس کے مشاہدات عالمی برادری کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اگر حکومت لاپتہ بلوچوں کے بارے میں وفد کو مطمئن نہیں کرتی اور وہ کوئی منفی نتیجہ اخذ کرتا ہے تو بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کے معاملات میں بیرونی مداخلت کو کلی طور پر خارج ازامکان قرار دینا شاید آسان نہ رہے۔ ملک کی سیاسی قیادت کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہم اپنے مسائل خود حل نہیں کرینگے تو مخالف قوتوں کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا خود بخود موقع ملے گا۔ اپنے معاملات خود حل نہ کرکے ہم پہلے بھی اپنا ایک بازو کھو چکے ہیں۔ اب مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
 
بلوچستان کا مسئلہ جوں جوں نقطہ ابال کی طرف بڑھ رہا ہے، پاکستان دشمن قوتوں کی دلچسپی اس میں زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ان قوتوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے حکومت کو چاہیئے کہ صوبے کے ناراض لوگوں سمیت تمام سیاسی قوتوں سے بلا تاخیر مذاکرات کرے۔ عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انہیں الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کرے اور جیتنے کی صورت میں اقتدار انہیں منتقل کرنے کی ضمانت دے۔ جہاں تک لاپتہ افراد کا معاملہ ہے تو ایجنسیوں اور سرکاری اداروں کو قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کا پابند کیا جائے۔ اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔
 
بلوچ قوم پرستوں کو بھی چاہیئے کہ حقوق و اختیارات کے حصول کیلئے دلیل و منطق کا راستہ اختیار کریں۔ بہترین راستہ یہی ہے کہ بے گناہ انسانی جانوں، قومی تنصیبات اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی بجائے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بڑی حد تک داخلی خود مختاری دے دی گئی ہے۔ جو کمی ہے اسے بات چیت کے ذریعے دورکیا جاسکتا ہے۔ قوم اور ملک کا مفاد اسی میں ہے۔ اسی طرف چلنے میں سب کی بھلائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 194557
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش