0
Thursday 20 Jun 2013 18:42

25 سال بعد افغانستان تو ہوگا لیکن پاکستان کا پتہ نہیں، سابق امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج

25 سال بعد افغانستان تو ہوگا لیکن پاکستان کا پتہ نہیں، سابق امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج
اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے افغانستان میں جاری جنگ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آج سے 25 سال بعد بھی افغانستان کی موجودہ سرحدوں اور نسلی و لسانی ڈھانچہ کے ساتھ بقاکی ضمانت تو دے سکتے ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں ایسا وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ افغانستان میں جاری جنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اب اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ بہتر ہوگا کہ امریکہ وہاں انسداد دہشت گردی کے مشن اور افغان فورسز کے تربیتی مراکز کے قیام کے بعد افغانستان سے رخت سفر باندھ لے۔ فارن پالیسی میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں سابق امریکی اہلکار نے پاک امریکی تعلقات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ 2005-2001ء تک ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ رہے اور اس معاملہ پر تفصیلات حاصل کرتے رہے کہ پاکستان طالبان کی مدد کررہا ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں تعاون اور رابطہ ضرور پایا مگر اس ضمن میں کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہ آسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ افغانستان کی جنگ کے دوران ہونے والے نقصانات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آغاز میں نقصانات بہت زیادہ تھے۔ میرے خیال میں دو باتیں رونما ہوئیں، اول یہ کہ طالبان نے خود کو تیزی سے مسلح کرنا شروع کردیا کیونکہ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ امریکی جلد ہی تھک ہار کر چلے جائیں گے۔ اس طرح افغانستان میں ہمیں برتری حاصل ہوجائے گی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے نقطہ نظر میں یہ معاملہ کوّا سفید ہے یا کالا کی طرح ہے جبکہ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے امریکہ ایک ناقابل اعتبار اور بے وفا اتحادی ہے کیونکہ 1947ء کے بعد سے ہمارے تعلقات پانچ مرتبہ عدم اعتماد کا شکار ہوچکے تھے چنانچہ پاکستانیوں کے لاشعور میں یہ خدشہ رہا کہ امریکی کب ہمیں داغ مفارقت دے کر راہ فرار اختیار کرجائیں گے۔

موجودہ صورتحال کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے رچرڈ آرمٹیج نے کہا کہ حکومت پاکستان کو یقین ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ ڈیل کرلیں گے جس کے تحت فریقین اپنی سابقہ پوزیشنوں پر لوٹ جائیں گے یعنی تاجک شمال میں، پشتون جنوب اور مشرق میں اور ہزارے وسط میں جن کو ہر طرف سے مار پڑا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ 2009-2008ء کے بعد پاکستان نے اپنے ایٹمی اسلحہ کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کیا ہے اور ان کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ امریکہ کسی بھی وقت اچانک ہمارے ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول سنبھال لے گا جبکہ دوسری طرف اسے بھارت سے مسابقت کی بھی فکر رہتی ہے اور اسی لئے پاکستان جدید ترین اور سریع الحرکت ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے کیونکہ پاکستانی یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک اور ممبئی طرز کے حملے کی صورت میں بھارت پاکستان پر بھرپور فوجی قوت کے ساتھ حملہ کردے گا چنانچہ بڑے فوجی حملہ کو پسپا کرنے کیلئے جدید اور سریع الحرکت ایٹمی ہتھیاروں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت کے ساتھ جنگ مزید پھیل سکتی ہے مگر پاکستان کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں فوری ایٹمی حملہ کی دھمکی بھارت کو کسی جارحانہ اقدام سے باز رکھ سکتی ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کی جانب سے امریکی سام میزائل کو روکنے کی کوشش پر سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ایک غیر دوستانہ اقدام ہے جو افغان فورسز کے خلاف نہیں بلکہ ہماری فضائی قوت کے خلاف تصور ہوگا تاہم ایسی خبروں کی صداقت پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان سے متوقع امریکی انخلاء اور سکیورٹی معاملات افغان فورسز کے حوالے کرنے پر پاکستانی ممکنہ اقدامات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے آرمٹیج کا خیال تھا کہ اسلام آباد اپنے موجودہ مؤقف اور تکونی حکمت عملی پر قائم رہے گا کہ جنوب اور مشرق میں طالبان کی حمایت جاری رکھی جائے اور تاجکوں کے بھارت اور روس کے ساتھ معاملات پر نظر رکھی جائے۔ اگر پاکستان میں داخلی خلفشار بڑھ جاتا ہے تو اس کی توجہ داخلی معاملات پر مبذول ہوجائے گی تاہم اس کے باوجود افغانستان کے بارے میں اسلام آباد کی سہہ رخی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 275335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش