0
Tuesday 8 Oct 2013 13:42

لاہور میں طالبان اور ایم کیو ایم نے بھتہ خوری کا سلسلہ شروع کر دیا

لاہور میں طالبان اور ایم کیو ایم نے بھتہ خوری کا سلسلہ شروع کر دیا
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

لاہور میں بھتہ خوری منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سلسلہ میں تحریک طالبان، ایم کیو ایم، جیل میں بند قیدی اور مختلف تنظیموں کے ارکان کے خلاف مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں، تاہم بھتہ مافیا بدستور اپنے کاروبار میں مصروف ہے۔ سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق گجر نے پولیس کو بھتہ خوروں کے خلاف موثر کارروائی اور ملزموں کو سزا دلوانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق لاہور میں تاجر اپنی جانیں بچانے کے لئے تحریک طالبان سمیت جرائم پیشہ افراد کو کروڑروں روپے بھتہ دے رہے ہیں۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق لاہور میں بھتہ خوری کے 35 مقدمات درج ہیں جن میں 12 کے چالان ہو چکے ہیں، 25 زیرتفتیش ہیں اور 25 ملزموں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق زیادت تر بھتہ خور مقامی جرائم پیشہ افراد ہیں۔ مصری شاہ کے ایک تاجر کا کہنا ہے کہ ان کے تین تاجر بھائی راوی روڈ اور گڑھی شاہو میں قتل ہو چکے ہیں لیکن مقتولین کے ورثاء نے مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف درج کروا کے خاموشی اختیار کر لی۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق مسلم ٹاؤن میں ایم کیو ایم کے دفتر سے عمران نے عقیل کو فون پر کہا کہ آپ کے خلاف نائن زیرو کراچی آفس میں درخواست آئی ہے کہ آپ کی بیوی نے اپنے سابق شوہر کو 60 لاکھ روپے دینے ہیں، وہ ادا کئے جائیں۔ پولیس نے عقیل کی شکایت پر مقدمہ درج کر کے عمران اور اس کی نشاندہی پر افتخار شاہ اور علی حسنین کو گرفتار کر لیا، لیکن مدعی کو ملزموں کیساتھ مصالحت کرنا پڑی اور ملزموں کی ضمانت کنفرم کرا کے ہی جان بچائی۔ اسی طرح مصطفیٰ ٹاؤن کے رہائشی ملک ثاقب کو سکیورٹی گارڈ رکھنا پڑے۔ ڈیفنس کے جمیل قریشی نے مقدمہ درج کروایا کہ کیمپ جیل میں بند ملزم شوکت ضیاء نے فون کر کے 10 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا ہے۔

رحمان گلی کے تاجر زاہد فیاض نے مقدمہ درج کرایا کہ اس کو ایک رقعہ کے ساتھ کلاشنکوف کی دو گولیاں بھیجی گئی ہیں اور 20 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی دوسرے مقدمات بھی درج ہیں۔ بھتہ کا مطالبہ زیادہ تر تحریک طالبان کے لوگ کر رہے ہیں۔ مصری شاہ میں لوہے کے گوداموں کے مالکان، شاہ عالم مارکیٹ اور گلبرگ میں کپڑے اور جوتوں کے پٹھان تاجر طالبان کو ماہانہ بھتہ دیتے ہیں اور مقدمات بھی درج نہیں کرواتے کیوں کہ جو پولیس خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ان کی حفاظت کیسے کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 309248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش