3
0
Sunday 17 Nov 2013 21:39

سانحہ راولپنڈی، متاثرہ مدرسے سے کبھی کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں کی گئی، مفتی نعیم

سانحہ راولپنڈی، متاثرہ مدرسے سے کبھی کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں کی گئی، مفتی نعیم
اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی رہنماﺅں نے سانحہ راولپنڈی کو ملک میں ایک اور سانحہ لال مسجد قرار دیا اور کہا کہ اسلام آباد میں لال مسجد کے واقعہ کے بعد تعلیم القرآن کے واقعہ میں امن مذاکرات کی امید دم توڑ گئی۔ اگر مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو خدانخواستہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوسکتی ہے، حکومت واقعے کے حقائق چھپا رہی ہے، تقریبا 90 افراد شہید ہوئے، 35 ہزار سے زائد قرآن پاک و احادیث مبارکہ و دیگر مقدس کتب جلائے گئے جبکہ قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہونے والی قدیم مسجد و مدرسہ کو جلا کر شہید کیا گیا، ایک ملالہ پر حملے کو تعلیم پر حملہ قرار دیکر وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور واقعے کو کوریج دی گئی جبکہ مسجد اور مدرسہ اور لوگوں کی اربوں کی مالیت کی مارکیٹ اور 90 نمازیوں کو بے دردی سے قتل کرکے واقعے کو دبانے کی سازشیں کی جارہی ہیں، تمام تر صورتحال کی ذمہ دار حکومت پنجاب اور وزیراعلیٰ شہباز شریف ہیں۔ اتوار کو سائٹ کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی پرہجوم پریس کانفرنس میں جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم، مولانا خلیل احمد، مولانا سعید احمد، قاری محمد اقبال، مولانا احسان شجاع آبادی، مولانا محمد زبیر، طارق مدنی سمیت وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے منسلک شہر قائد کے دینی مدارس کے منتظمین، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماﺅں نے شرکت کی۔

مفتی محمد نعیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم وفاقی وزیر داخلہ، وزیر پنجاب اور پنجاب حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ محرم الحرام سے چند روز قبل ایک متعصب پولیس افسر کو چکوال سے لاکر کیوں تعینات کیا گیا؟ شرکاء جلوس جب سکیورٹی حصار میں تھے تو ان کے پاس اسلحہ کیسے آیا اور اسلحہ کس نے کیونکر فراہم کیا؟ حساس ترین دن میں حساس موقع پر سکیورٹی کمزوری کیوں دکھائی گئی؟ جب شرکاء جلوس کے ساتھ رینجرز، پولیس اور دیگر ادارے شریک تھے تو یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟ قاتلوں، دہشت گردوں اور جلاﺅ گھیراﺅ کرنے والوں کے ہاتھ کیوں نہیں روکے گئے؟ اس واقعہ میں جہاں دہشت گرد ملوث ہیں وہاں مقامی پولیس اور انتظامیہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری حب الوطنی، صبر اور برداشت کو کمزوری پر محمول کرکے آئے روز اہل سنت کا استحصال کیا جارہا ہے، ایک طبقے کی سیکورٹی کے نام سالانہ اربوں روپے برباد کئے جارہے ہیں، دینی اداروں کی تذلیل کی جارہی ہے، ہمارے علماء، طلبہ و طالبات اور ہمدردوں کو شہید کیا جاتا ہے، اس سے قبل جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نمائش، سمیت کئی مدارس کے طلبہ و ملک کے ممتاز اور غیر سیاسی علماء کرام کو شہید کیا گیا، تواتر کے ساتھ ہونے والے یہ واقعات اتفاقی نہیں اور جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کا واقعہ بھی اچانک نہیں ہوا ہے۔

مفتی محمد نعیم نے کہا کہ آج ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے اس واقعہ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے ذمہ داران اور محب وطن اور مسلح افواج کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان واقعات کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، شام، بحرین، سعودیہ اور عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے موجودہ حالات اس کی ریہرسل اور ابتداء ہے ہم حکومت کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اس عالمی سازش کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 15 نومبر کو سوچی سمجھی سازش کے تحت جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی پر حملہ کرکے معصوم بچوں کے گلے کاٹ کر شہید کیا گیا اور جامعہ اور اس سے ملحقہ جامع مسجد کو آگ لگائی گئی، گولیوں، چھریوں اور تلواروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، پولیس، رینجرز، فوج اور انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے یہ دہشت گرد آگ و خون کی ہولی کھیلتے رہے اور بغیر کسی خوف کے دندناتے رہے، انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا، پولیس، رینجرز اور فوج صرف تماشہ دیکھنے کیلئے تھیں انہیں جلوس کی حفاظت تو عزیز تھی لیکن ان نہتے بچوں کی جانوں کی ان کی نگاہ میں اہمیت نہ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک منظم گروہ نے پہلے اسلحہ کے زور پر میڈیا کو کوریج سے روکا، ان کے کیمرے چھین لئے گئے کیمروں سے ریلیں نکال کر پھینک دی گئی اور بعد ازاں میڈیا کے اداروں کو فون اور دیگر ذرائع سے جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کا نام لینے روکتے ہوئے اس حملے کو عاشورہ کے جلوس پر حملہ اور فوارہ چوک کے قریب دو گروہوں کے مابین تصادم کا نام دینے کی ہدایت کی گئی، آپ لوگ خبر دیں گے مگر نہیں چلے گی، اس لئے ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے، آپ بھی مجبور ہیں۔ اس بات کے شواہد ہیں حملہ آوروں کی قیادت راولپنڈی کے معروف عالم کر رہے تھے حملے میں تین گھنٹے تک ان کی قیادت میں یہ ظلم جاری رہا، حملہ آوروں نے جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں روڈ سے 200 میٹر اندر جامعہ کی مسجد میں لوگوں کو ذبح کیا۔ علماء کرام نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کمیشن کے نام پر اس کیس کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش حماقت ہوگی اور اس تپش کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 321897
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

صرف یہ کہا گیا کہ
افسوس کہ کربلا کی تاریخ 300 سال بعد ایک عجمی ایرانی مورخ نے لکھی اور یہ سب جھوٹ اور لفاظی ہے۔ ایران ابھی تک عرب مسلمان کی مار کو نہیں بھولا اور یہ ثبوت ہے کہ فردوسی اور سعدی اپنے اشعار میں عرب مسلمانوں کو گالم گلوچ بکتے رہے ہیں۔
‎‫یہ سازش شروع ہوئی رسول صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے وقت، جب چند مفاد پرستوں نے جو اپنے کو اھل بیت کہتے تھے، ملوکیت کا زھریلا پھن اٹھایا۔
‎‫کیا اسلام میں حکومت کسی کے باپ کی جاگیر ہے۔؟‬
‎‫کیا اسلام جاگیر پہ اور غنڈا گردى پہ انحصار کرتا ہے؟‬
‎‫یہی وە لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو آج تک نقصان دیا اور دے رہے ہیں۔
‎‫اب رواداری اور مصلحت سے کام نہیں چلے گا ورنہ تم سنیوں کا حشر شام کے سنیوں جیسا ہوگا۔‬
فرقہ واریت اور نفرت کو راولپنڈی کی "مسجد ضرّار" سے جتنی ہوا دی جاتی ہے اسکی مثال کہیں نہیں ملتی، علامہ حیدر علوی
نہیں معلوم تضاد کہاں ہے
افسوس اس نادان بے ضمیر بے سواد کو تاریخ کا کوئی پتہ نہیں۔
ہماری پیشکش