0
Friday 29 Nov 2013 23:39

کوئی یہ نہ سمجھے کہ میرے چلے جانے سے لاپتہ افراد کا معاملہ ختم ہو جائیگا، افتخار محمد چوہدری

کوئی یہ نہ سمجھے کہ میرے چلے جانے سے لاپتہ افراد کا معاملہ ختم ہو جائیگا، افتخار محمد چوہدری

اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی گمشدگی کے مقدمے میں نامزد پاکستان فوج کے حاضر سروس برiگیڈیئر سمیت 19 افسران اور اہلکاروں کو سی آئی ڈی کوئٹہ کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے یہ حکم لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا۔ ڈی آئی جی سی آئی ڈی امتیاز شاہ نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈیئر اورنگزیب، کرنل نعیم، میجر طاہر، صوبیدار مومن اور اللہ بخش سمیت 19 افسران اور اہلکار گمشدگی کے مقدمات میں نامزد ہیں۔ دو اہلکاروں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی سے سوال کیا کہ ان لوگوں کو آج عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ اب آپ بتائیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے۔ یاد رہے کہ جمعرات کو سماعت کے موقعے پر عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ آئی جی ایف سی اور لاپتہ افراد کے مقدمات میں نامزد افسران جمعہ کو عدالت میں پیش ہوں، لیکن وہ آج غیر حاضر رہے۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا انہوں نے سیکرٹری دفاع کو عدالت کے احکامات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری طیارے میں تھے اس لیے انہیں اطلاع نہیں دے سکے لیکن انہوں نے فیکس کے ذریعے سیکرٹری کو آگاہ کر دیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق ان کے پاس فیکس کی سہولت نہیں تھی اور انہوں نے رینجرز کے دفتر سے فیکس بھیجا، جس کی وجہ سے کچھ دیر ہوئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا کہ کیا یہ افسران اتنے بڑے ہیں کہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کیا کر رہی ہے۔ ان افسران اور اہلکاروں کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ چیف گیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے بینچ کی طرف نظروں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضبوط لوگ ہیں فکر مت کرو۔ سپریم کورٹ میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے مقدمے کی یہ 93 وویں سماعت تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کافی پیشرفت ہوئی۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ کب تک آگے بڑھتے رہیں گے جبکہ لوگوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے اور ریاست کوئی کوشش نہیں کر رہی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گمشدگی میں نامزد کئی افسران اور اہلکار واپس فوج میں چلے گئے ہیں۔ کچھ کا تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سویلین معاملہ ہے، گمشدگیوں کے مقدمے میں انہیں پیش کریں۔

وائس فار مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ لانگ مارچ کے بعد انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ گذشتہ شب جب ماما قدیر بلوچ کراچی پریس کلب سے اپنی رہائش گاہ لیاری جا رہے تھے۔ جب وہ راستے میں سامان لینے کے لیے رکے تو کچھ مسلح افراد نے انہیں اسلحے کے زور پر ڈرایا۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق لاپتہ افراد کی بیٹیاں، بہنیں ڈری ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے ان کے بھائی کو کوئٹہ سے ایک سفید گاڑی میں سوار لوگوں نے اٹھایا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تمہارے بھائی نے اچھا نہیں کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو کراچی میں تحفظ فراہم کیا جائے۔ عدالت نے مزید سماعت تین دسمبر تک ملتوی کر دی۔

خبر کا کوڈ : 325923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش