0
Friday 4 Jul 2014 22:22

بلوچستان، ساڑھے تین سال میں 800 لاشیں برآمد

بلوچستان، ساڑھے تین سال میں 800 لاشیں برآمد
اسلام ٹائمز۔ کوئٹہ میں محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کے ذرائع نے میڈیا کو بتایا ہے کہ کوئٹہ، خضدار اور مکران کے علاقوں سے گزشتہ ساڑھے تین سال میں 800 سے زائد لاشیں ملنے کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے 466 لاشیں بلوچوں اور 123 پشتونوں کی تھیں، 107 لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی جبکہ اتنی ہی لاشیں ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کی تھیں۔ ذرائع نے نشاندہی کی کہ ان میں سے 400 سے زائد لاشیں بلوچ سیاسی کارکنوں کی تھیں تاہم لاپتہ بلوچ افراد کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم (وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز) کے چیئرمین کے مطابق بلوچ افراد کی ملنے والی لاشوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق دیگر افراد ٹارگٹ کلنگ، قبائلی تنازعات اور دیگر پرتشدد واقعات میں مارے گئے۔

بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر حئی بلوچ نے کہا کہ یہ معاملہ ایک ہنگامی صورتحال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی بھی بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے صوبے کے مختلف علاقوں سے انہیں اٹھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں ہے جہاں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور راکٹ حملوں سمیت دیگر واقعات میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تاہم مسخ شدہ لاشیں 2009 میں ملنا شروع ہوئیں اور اس وقت سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر حئی بلوچ نے کہا کہ حکمران بلوچستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

جن لاشوں کی شناخت نہیں ہو پاتی، ان کی تدفین کے فرائض ایدھی فائونڈیشن انجام دیتی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے ان افراد کے اہلخانہ کو ڈھونڈنے کے لیے کی جانے والی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں اہم قومی تنصیبات پر شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے، شدت پسندوں نے 65 بار گیس تنصیبات پر حملہ کیا جبکہ صوبے میں تنصیبات پر کیے گئے 37 بم دھماکوں میں 37 افراد ہلاک اور 231 زخمی ہوئے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی صوبے میں مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایچ آر سی پی بلوچستان کے رکن شمس الملک مندوخیل نے کہا کہ حکومت کو ان ہلاکتوں کی ہر حال میں تحقیقات کرانی چاہیے۔ بلوچستان میں سرکاری و غیر سرکاری دونوں عناصر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں ، امن و امان کی ابتر صورتحال نے صوبے کی معیشت تباہ کر دی ہے اور اسے کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 397355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش