0
Friday 13 Mar 2015 12:59

سندھ میں گورنر راج کی اطلاعات، سیاسی جماعتوں کی صف بندی

سندھ میں گورنر راج کی اطلاعات، سیاسی جماعتوں کی صف بندی
اسلام ٹائمز۔ سندھ میں گورنر راج کی رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔ یہ خبریں کراچی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹرز پر رینجرز کے صبح سویرے چھاپے کے ساتھ گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ یاد رہے کہ سندھ کے معاملات پر سولہ فروری کو منعقدہ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ناراضگی اور غصے کے اظہار نے گورنر راج کے بارے میں قیاس آرائیوں کو فروغ دیا تھا۔ تاہم ناصرف سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی بلکہ عوامی نیشنل پارٹی جس کی سندھ اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے، اس طرز کے کسی اقدام کی مخالفت کی تھی۔

ان کا یہ خیال بھی ہے کہ اگرچہ یہاں ایسے عناصر موجود ہیں جو جمہوری حکومتوں کو فعال ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، سینیٹ کے انتخابات کے پُرامن انعقاد نے یہ اشارہ دیا ہے کہ جمہوری نظام ملک میں جڑ پکڑ رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سعید غنی، جنہیں حال ہی میں سینیٹ میں پارٹی کا پارلیمانی لیڈر نامز کیاگیا ہے، کہتے ہیں کہ گورنر راج صرف وزیراعظم کے مشورے پر نافذ کیا جاسکتا ہے اور چھ مہینوں کے اندر اندر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی جانب سے اس کی توثیق کی جانی ہوگی۔

ان کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ ایسے کسی اقدام کی توثیق نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس کے علاوہ جب ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، اس طرح کے کسی اقدام کے بعد اس کے لیے اس جنگ پر توجہ مرکوز کرنا اور سیاسی جماعتوں سے حمایت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج کا نفاذ ایک غیردانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درّانی نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت ایک منتخب حکومت کی بے دخلی کو دیکھنا پسند نہیں کرے گی، سوائے اس کے کہ صورتحال نمائندہ حکومت کے لیے بے قابو ہوگئی ہو۔

ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبز واری نے کہا کہ ان کی پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے محتاط انداز میں کہا ’’یہی وجہ ہے کہ ہم جمہوری حکومتوں کو منصفانہ اور مؤثرانداز میں چلانے پر زور دیتے ہیں۔یہ ازخود تمام غیرجمہوری تصورات کی نفی کر دے گا۔‘‘

حزبِ اختلاف کے سینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پیر صدر الدین شاہ راشدی المعروف یونس سائیں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں گورنر راج کیا ضرورت ہے، جبکہ ’اسٹیبلشمنٹ‘ نے پہلے ہی ایک سخت آپریشن کو قانونی تحفظ دے دیا تھا۔

سندھ میں مسلم لیگ نواز کے صدر اسماعیل راہو نے کہا کہ ان کی پارٹی صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ ہر ایک منتخب حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو اور اپنی مدت اقتدار کے دوران عوام کی خدمت کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ثمر علی خان نے محسوس کیا کہ منتخب حکومت عوام کی خدمت میں ناکام ہوگئی ہے اور اس وقت گورنر راج کے نفاذ کے لیےصورتحال سازگار ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ اس کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’’اصولی بنیاد پر ہم گورنر راج (کے نفاذ) کی حمایت نہیں کرتے۔‘‘

اے این پی کے بشیر جان نے کہا کہ گورنر راج یا مارشل لاء بھی کسی بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، اس لیے کہ صرف جمہوری حکومت ہی تمام مسائل کا مستقل حل فراہم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن اس کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 447110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش