0
Friday 4 Feb 2011 15:37

مصری قوم اور حکومت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

مصری قوم اور حکومت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

اسلام ٹائمز- گذشتہ سال قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطینی مجاہدین کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران فلسطین اور خطے کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند متعال کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کی روشنی میں جدید مشرق وسطی معرض وجود میں آ کر رہے گا، اور یہ جدید مشرق وسطی اسلامی مشرق وسطی ہو گا"۔
مصری قوم ہرگز اپنے حکمرانوں کی خیانت کو برداشت نہیں کرے گی:
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 اپریل 1993 کو وزارت حج کے اہلکاروں کے ساتھ اپنی ملاقات میں فرمایا:
"مصری قوم ایک مسلمان قوم ہے اور اسلام میں ایک پرافتخار ماضی کی حامل ہے۔ ملت مصر نے جدید اسلامی افکار کے پھیلاو اور اسلامی مزاحمت کے راستے میں عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہ قوم ایک غیرت مند قوم ہے، مجھے یقین ہے کہ مصری قوم کبھی بھی اپنے حکمرانوں کی خیانت کو برداشت نہیں کرے گی اور انکے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہو گی۔
مصری عوام کی جدوجہد کا ہم سے کیا تعلق؟، دنیا میں جہاں بھی مسلمان بیدار ہوتے ہیں ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جہاں بھی مسلمان دشمن کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جہاں بھی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں دکھ ہوتا ہے اور اس سے متعلق احساس مسئولیت کرتے ہیں۔ یہ ہم نہیں ہیں جنہوں نے مصری قوم میں احساس وظیفہ پیدا کیا ہے، وہ خود اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں، وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے، اور صحیح سمجھے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ ملت مصر صحیح سمجھ گئی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ مصری جوان سمجھ گئے ہیں کہ ایسی حکومت کے مقابلے میں جو اسلام اور فلسطین کے ساتھ خیانت کی مرتکب ہوئی ہے قیام کرنا چاہئے"۔
مسلمان گوشہ نشینی کا شکار ہیں:
قائد انقلاب اسلامی ایران 3 فروری 1995 کو نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطی میں بہت سے ایسے مسلمان ممالک ہیں جہاں کئی سیاسی نظام گئے اور کئی آئے لیکن وہاں کے مسلمان گوشہ گیری اور انزوا کا شکار رہے۔ مثلا عراق میں سلطنتی نظام حکومت برسراقتدار تھا، اسکے ختم ہونے کے بعد ایک اور نظام حکومت آ گیا۔ وہ نظام بھی ختم ہو گیا اور ایک نیا نظام حکمفرما ہو گیا، وہ بھی ختم ہوا اور بعث پارٹی حکومت پر قابض ہو گئی۔ ان تمام سیاسی تبدیلیوں میں عراقی مسلمانوں کا کوئی کردار نہ تھا۔ عراق میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ان تمام حکومتوں کے برسراقتدار آنے میں مسلمان عوام کا کوئی موثر کردار نہ تھا۔ یہی صورتحال مصر کی ہے۔ البتہ وہاں پر ایک تنظیم "اخوان المسلمین" کے نام سے فعال ہے۔ وہاں پر سلطنتی نظام حکومت ختم ہونے کے بعد جمال عبدالناصر کی سربراہی میں ایک جمہوری اور انقلابی حکومت برسراقتدار آئی۔ عبدالناصر کے بعد ایک اور شخص آ گیا اور اسکے بعد تیسرا شخص آ گیا۔ ان تمام سیاسی تبدیلیوں میں اسلامی تحریک اور مسلمانوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ مصر کے انقلاب کے شروع میں اسلامی قوتیں فعال تھیں لیکن انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے بعض کو قید میں ڈال دیا گیا اور بعض کو قتل کر دیا گیا"۔
مصر میں اسلامی گروہوں سے وابستہ افراد کا ٹارچر کیا جانا:
15 نومبر 1989 کو شہداء کے عزیز و اقارب سے ملاقات میں فرماتے ہیں:
"مصر میں ان اسلامی گروہوں سے وابستہ افراد کو جو اسلام کے دفاع کیلئے قیام کرتے ہیں حکومت کی جانب سے ٹارچر کیا جاتا ہے اور عالمی طاقتیں بھی انہیں حکومتوں کی حمایت کرتی ہیں۔ دنیا میں بہت سے دوسرے ممالک بھی اسی طرح ہیں"۔
امریکہ کی جانب سے مصری حکومت کی بھرپور حمایت:
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای 18 مئی 1993 کو حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں فرماتے ہیں:
"مصر میں روشن فکر ترین مسلمان اس ملک کی نالائق اور کرپٹ حکومت کی جانب سے آذار و اذیت کا شکار ہونے کے بعد ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف مصر کی نوکر حکومت ہمیشہ امریکہ کی جانب سے مالی امداد اور سیکورٹی معاملات میں ہمکاری کے ذریعے حمایت سے برخوردار رہتی ہے"۔
مصری عوام اہلبیت س سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں:
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای 16 جون 1993 کو دینی طلاب کے ساتھ ایک ملاقات میں فرماتے ہیں:
"آج مصر میں موجود "راس الحسین" مسجد جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک دفن ہے، مصری عوام کا مرکز بن گئی ہے۔ مصری عوام محب اہلبیت س ہیں، مصری قوم انتہائی اچھی قوم ہے، مصری قوم اہلبیت س سے محبت رکھتی ہے"۔

خبر کا کوڈ : 52879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش