0
Monday 7 Mar 2011 09:29

مذہبی جماعتیں مسلح جدوجہد نہ کرنے پر متفق ہیں، تنہا فیصلے کرکے مفاہمت کی بات کی جاتی ہے، اپوزیشن کو متحد کر رہے ہیں ،فضل الرحمن

مذہبی جماعتیں مسلح جدوجہد نہ کرنے پر متفق ہیں، تنہا فیصلے کرکے مفاہمت کی بات کی جاتی ہے، اپوزیشن کو متحد کر رہے ہیں ،فضل الرحمن
لاہور:اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں مسلح جنگ نہ کرنے پر متفق ہیں، وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل کی مذمت کرتے ہیں لیکن اگر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ناموس رسالت کے قانون کے خلاف استعمال کیا گیا تو یہ ناقابل برداشت ہو گا، آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت خود پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے، تنہا فیصلے کر کے مفاہمت کی بات کی جاتی ہے، دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں زیادہ کرپشن ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر چلائی جا رہی ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار یہاں گزشتہ روز عبدالقدیر پارک میں جے یو آئی لاہور کے ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران کیا۔ کنونشن سے جے یو آئی ناظم نشرواشاعت مولانا امجد خان، پارٹی کے صوبائی امیر پنجاب رشید احمد لدھیانوی، ناظم عمومی پنجاب قاری عتیق الرحمن سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔ ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک کی تمام مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں مسلح جنگ نہ کی جائے بلکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کی جائے تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے، فاٹا کے علاقوں میں ناکام ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں، دو افراد کو مارنے کیلئے پاکستان میں 118 ڈرون حملے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی میں اتنی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ملک میں موجود اسلامی قوانین کو متنازعہ بنا سکے، انہوں نے کہا کہ ہم اقلیتوں کے برابر کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور تمام انبیاء کے احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت معیشت کو مسئلہ ہے، کرپشن عروج پر ہے، ملک کے استحکام، اسلامی حیثیت اور معیشت کی بہتری اور فلاح وبہبود کیلئے مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا، تاکہ ملک اندرونی اور بیرونی دباﺅ سے باہر نکل سکے۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی ملک کے عوام اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو عین اسی وقت امریکا سمیت اقوام متحدہ غیر جانبدار کردار کو ادا کرتے ہیں، اس سے افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا کے حکمران اپنا اقتدار بچانے کیلئے عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتے۔ 
وقت نیوز کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ جو رویہ اپنا رہا ہے وہی ہمارے حکمران پارلیمنٹ کی قرار دادوں پر اپناتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی مذہبی طبقات کے آگے آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہم تشدد اور خون خرابے کی تحریک اور بندوق کے سہارے کے نہیں، جمہوری اور سیاسی عمل پر یقین رکھنے والے ہیں، فوجی آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوئے، مٹھی بھر عسکریت پسندوں کے خاتمے کیلئے پورے ملک میں آگ پھیلائی جا رہی ہے، حکومت اکیلے فیصلے کرتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے کے لیے مفاہمت کا راگ الاپتی ہے، حکمران مفاہمت کی سیاست کے نام پر فیصلے خود کرتے ہیں، یہ مفاہمت اصل میں امریکی مفاد کے تحفظ کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ حکومتیں اور خفیہ ادارے جب ضرورت پڑی وہ ملک میں فرقہ پرستی کو پھیلا دیتے ہیں اور آجکل پنجاب حکومت بھی ایسا ہی کر رہی ہے، عوامی مسائل پر حکومت کو ایجنڈا دینے والے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نواز پالیسیوں کی حمایت کیلئے صدر آصف زرداری کی گرفت مضبوط بنانے کیلئے ان کے ساتھ ہیں، اپوزیشن کو حکومت کی طرح اپوزیشن بھی کرنی نہیں آتی مگر اب ہم اپوزیشن کو متحد کر رہے ہیں۔ وہ لٹن روڈ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) لاہور کے زیر اہتمام ضلعی ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔ 
اس موقع پر جے یو آئی پنجاب مولانا رشید لدھیانوی، مولانا محمد امجد خان، قاری ثناءاللہ اور دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسلامی دنیا کے حکمران امریکہ کے پجاری ہیں اب جن ممالک میں انقلاب آ رہا ہے امریکہ وہاں متبادل کے طور پر بھی اپنے حواریوں کو ہی حکومت میں لانا چاہتا ہے لیکن ہم ایسے انقلاب کے حامی ہیں جس میں چور، لٹیرے اور مفاد پرست ختم ہو جائیں، قیام پاکستان کے بعد سے کبھی اسٹیبلشمنٹ نے دینی جماعتوں کو آگے نہیں آنے دیا اگر ہم خیبر پی کے میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے برج اُلٹا سکتے ہیں تو پنجاب میں بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ جب بھی حکمرانوں اور خفیہ اداروں کو فرقہ پرستوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کو آگے لایا جاتا ہے آجکل پنجاب حکومت بھی اپنے سیاسی مفادات کیلئے فرقہ پرستوں کو آگے لا رہی ہے۔ ہم نے ایم ایم اے سمیت تمام دینی جماعتوں کے اتحاد کے فورم پر کبھی فرقہ پرستی کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ قوم کو متحد رکھنے کی سیاست کی ہے۔ 2001ء میں جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو ہم چند لوگ ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت کی اور یورپ کے علاوہ اسلامی ممالک کے امریکہ نواز حکمران بھی اس کی حمایت کرتے رہے، لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ جن جن اسلامی اور یورپی ممالک نے اس کی حمایت کی وہاں سب کی حکومتیں ختم ہو گئیں۔
 آج سب لوگ ہمارے موقف کی تائید کر رہے ہیں، اسلحہ کی طاقت سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے، ہم اب بھی کہتے ہیں کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں بلکہ اس سے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر بمباری کی جا رہی ہے، تھوڑے سے اکثریت پسندوں کے خاتمے کیلئے پورے ملک میں آگ پھیلائی جا رہی ہے جو لوگ تعلیمی اداروں پر بم پھینکتے ہیں ہم ان کے حامی نہیں لیکن یہ بھی بتایا جائے کہ حکمران دینی مدارس پر بمباری کیوں کرتے ہیں، ڈرون حملے ہو رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہماری افواج ان ڈرون طیاروں کو گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے لیکن سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا۔ قبائلی علاقوں میں غیر اعلانیہ مارشل لاءہے وہاں قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر آج تک ضمنی انتخاب نہیں کرایا جا سکا اس لئے مجھے نظر آ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہاں پر کوئی انتخابی عمل نہیں ہو سکے گا۔ 
انہوں نے کہا کہ آج ملک میں کرپشن عروج پر ہے، معیشت گر رہی ہے جب تک ہم اپنی معیشت کا انحصار خود پر نہیں کریں گے ملک اسی طرح مسائل کا شکار رہے گا۔ ہم نے تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے ایشو پر دو ٹوک موقف اختیار کیا اور حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ جب تک بیرونی طاقتوں سے معیشت، قانون، آئین اور سیاست کو آزاد نہیں کرائیں گے اس وقت تک عام آدمی کو کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ تحفظ ناموس رسالت پر کسی قسم کے اجماع کی ضرورت نہیں، وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کی تمام دینی جماعتوں نے مذمت کی ہے، تاہم اس قتل کو قانون توہین رسالت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ان کے آنے سے اب اپوزیشن اپنا کردار ادا کریگی۔
خبر کا کوڈ : 57976
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش