2
Friday 30 Sep 2022 15:36

آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
تحریر: ہادی محمدی
 
علم سیاسیات میں کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلہ پالیسی کا تسلسل اور عکاس ہوتی ہے۔ یعنی ایک ملک کی خارجہ پالیسی بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اس کے سکے کا دوسرا رخ ہوتا ہے اور علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے بہت سے واقعات اس ملک کے اندر رونما ہونے والے واقعات سے مربوط ہوتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے عالمی سطح پر اپنا تسلط قائم کرنے اور ورلڈ آرڈر کی چوٹی پر قرار پانے کی کوشش کی۔ سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد بائی پولر نظام کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد امریکہ اپنی آرزو کے حصول کیلئے مزید فعال ہو گیا اور اس راستے میں اس نے کسی بھی مجرمانہ پالیسی سے دریغ نہیں کیا۔ امریکہ کا یہ رویہ اور طرز عمل صرف اسلامی ممالک سے ہی مخصوص نہیں تھا۔
 
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہونے کے بعد یورپ کی تعمیر نو کیلئے مارشل پلان پیش کیا اور اس منصوبے کی آڑ میں یورپی ممالک پر بھی اپنا تسلط جمانے کی بھرپور کوشش کی۔ آج بھی جبکہ امریکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور شدید اقتصادی بحرانوں سے روبرو ہے، وہ یوکرین میں جنگ کے شعلے جلا کر دیگر مختلف اہداف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ کو اپنا محتاج باقی رکھنے اور اپنی معیشت کی بحالی کیلئے اس کی لوٹ مار کرنے کی کوشش میں بھی مصروف ہے۔ امریکہ مختلف یورپی ممالک میں کئی قسم کے بحران ایجاد کر کے خودمختار یورپ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے روک رہا ہے اور جرمنی کی معیشت پر اپنا زیادہ سے زیادہ کنٹرول جمانے کے درپے ہے۔ امریکہ نے روس، چین اور دنیا کے دیگر ممالک سے متعلق بھی اسی قسم کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
 
اگر ماضی میں واشنگٹن دنیا پر تسلط ایجاد کرنے کا راستہ سخت طاقت، لشکر کشی اور فوجی جارحیت کی صورت میں دیکھتا تھا تو آج سخت طاقت کی عدم افادیت کا ازالہ نرم طاقت اور کم اخراجات کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک، حریف ممالک اور مختلف خطوں سے متعلق امریکی کی مستقل حکمت عملی ان ممالک کے اندر دوئیت پیدا کرنے، دیگر ممالک کے ساتھ تضاد ایجاد کر کے تناو پیدا کرنے اور پراکسی جنگیں شروع کرنے پر استوار ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا گذشتہ چالیس سالہ تجربہ بھی یہی ثابت کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے کنٹرول اور مرضی سے چلانے کی پالیسی اختیار کرنے کی بہترین مثال ہے۔ ایران میں رونما ہونے والا کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں جس میں اس امریکی پالیسی اور اس کے ہتھکنڈوں کا سراغ نہ ملتا ہو۔
 
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ایران کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی اکثر پالیسیاں اور ہتھکنڈے ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں لہذا انہوں نے اب نیا طریقہ کار اختیار کیا ہے جو ایران میں رونما ہونے والے ہر سماجی، اقتصادی اور سیاسی واقعہ کو کارڈ کے طور پر استعمال کرنے پر مبنی ہے۔ امریکہ نے دیکھا ہے کہ اس کی گذشتہ اسٹریٹیجیز نہ صرف ناکام ہوئی ہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مختلف شعبوں جیسے اقتصادی، سکیورٹی، علاقائی اور حتی بین الاقوامی میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ لہذا اب اس نے ایران کے اندر چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑا ایشو ظاہر کرنے کی پالیسی اپنا لی ہے تاکہ یوں وقتی طور پر ہی سہی اپنی تیزی سے کمزور ہوتی پوزیشن کو کچھ حد تک سہارا دے سکے۔ امریکہ آج یمن، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور افغانستان میں ایسے حالات سے روبرو ہے جو ان کے اپنے بقول شکست کے مترادف ہے۔
 
عالمی سطح پر امریکہ نے روس اور چین سے ٹکر لے رکھی ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر ایران کیلئے سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ سے یہ توقع رکھنا بے جا ہے کہ وہ اپنی تسلط پسندانہ پالیسیاں ترک کر دے گا۔ امریکہ نے قفقاز کے خطے میں بحران سازی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ ایران کے اندر بھی بدامنی پھیلانے کی کوشش جاری ہے تاکہ باہر اور اندر سے ایران کو مزید دباو کا شکار کر سکے۔ دوسری طرف افغانستان اور وسطی ایشیا میں امریکہ نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو دوبارہ بحال کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جبکہ عراق میں مسلسل سیاسی بحران کو برقرار رکھنے کا ارادہ ہے۔ اس دوران امریکہ عراق، شام اور یمن کے خام تیل کے ذخائر کی لوٹ مار میں بھی مصروف ہے۔
 
اہم بات یہ ہے کہ اس تگ و دو میں امریکہ نے نہ صرف اپنی طاقت کا ستیاناس کر دیا ہے بلکہ اپنے اتحادی ممالک اور عالمی تنظیموں کا بھی اصل چہرہ کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ اگر ماضی میں امریکہ کی مہم جوئی دوسرے ممالک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی تھی تو آج اس کے اپنے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ مسلسل ناکامیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید کمزور کر دیا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اس وقت ایسے حالات کی جانب گامزن ہیں جو عدم استحکام، غربت، اقتصادی بحران، ہنگامہ آرائی اور انارکی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی آج تک جو کھیل دوسروں کے ساتھ کھیلتے آئے ہیں اب خود اس کا شکار ہونے والے ہیں۔ یہ علم سیاسیات کا وہی اصول ہے کہ ایک ملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلہ پالیسی اور اندرونی حالات سے مربوط ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1016929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش