1
0
Friday 25 Nov 2022 07:30

شہید علی ناصر صفوی، برسوں تجھے گلشن کی ہوا یاد کرے گی

شہید علی ناصر صفوی، برسوں تجھے گلشن کی ہوا یاد کرے گی
تحریر: علی ناصر الحسینی

جب بھی کسی تنظیمی دوست، تحریکی بزرگ سے تنظیمی و اجتماعی امور یا کوئی پراجیکٹ کی بات چھیڑو تو سب سے پہلے مایوسی کا ایک چھٹا آپ کے منہ پر مارا جاتا ہے کہ کام تو ٹھیک ہے، مگر اس کیلئے تنظیم کے پاس وسائل دستیاب نہیں۔ پہلے ہی جو کام منظور شدہ ہیں، جو پراجیکٹ شروع کردہ ہیں، ان کی تکمیل ممکن نہیں ہو رہی۔ قومی جماعتوں کی بھی اپنی ترجیحات اور پسند و ناپسند ہوتی ہیں۔ اپنے اہداف ہوتے ہیں، اپنی کمٹمنٹس ہوتی ہیں اور یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ ایک لائن یا ایک خط ہوتا ہے، جسے کھینچ کے بتا دیا جاتا ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ سو قائدین اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے نہ اپنے زیر قیادت کسی کو اس خط سے منحرف ہونے دیتے ہیں۔ یہ روش ہم نے ہمیشہ سے تنظیموں و تحریکوں میں دیکھی ہے۔ آج بھی یہی روش چل رہی ہے، اس روش سے بہت سے کام کرنے کے خواہش مند مایوس بھی ہو جاتے ہیں۔ آگے بڑھتے قدم نہ صرف روک لیتے ہیں بلکہ انہی قدموں سے پیچھے بھی مڑ جاتے ہیں۔

کسی جماعت و تنظیم کا نام لیے بنا، اس کا تجزیہ و تحلیل کیا جا سکتا ہے، کہ جماعتوں کے ادوار، عوامی پذیرائی، عوامی شرکت، رجوع اور قومی قائدین پر اعتماد، ان کی صدا پر لبیک کہنے والوں کی تعداد سب سامنے ہیں۔ اگر ان مسائل پر تنظیموں کے ذمہ داران اور قائدین سے بات کریں گے تو وسائل کی عدم دستیابی کا ایک نوحہ سنا دیا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ دفاتر و امور چلانے کیلئے وسائل نہیں ہیں، دفاتر کے ملازمین کیلئے تنخواہیں تک نہیں ہیں، مشکلات ہیں، لوگ تعاون نہیں کرتے۔ بہرحال یہ ایک صورتحال ہمیشہ رہتی ہے اور ہم دیکھتے آرہے ہیں، مگر۔۔۔۔ ایسا بھی نہیں کہ سب ایک سے ہوں، کچھ جنون بھی رکھتے ہوتے ہیں، کچھ درد بھی رکھتے ہوتے ہیں، کچھ احساس بھی رکھتے ہوتے ہیں۔ اس جنون، اس درد، اس احساس کے ہوتے ہوئے وسائل کا رونا نہیں رویا جاتا۔ اس درد، اس جنون، اس فکر، اس احساس کے ہوتے ہوئے توکل باللہ سے بھی آگے بڑھا جاتا ہے۔

ہم نے طویل تنظیمی و اجتماعی زندگی میں ایسے بہت سے لوگ بھی دیکھے، ایسے بہت سے واقعات اور مواقع بھی سامنے رہے کہ جب کسی نے وسائل کا رونا نہیں رویا، بلکہ اپنے درد و احساس کی بنیاد پر قرب الہیٰ کی نیت سے بنا نمود و نمائش اپنا کام جاری رکھا اور اپنے ہدف و مقصد پر ڈٹے رہے، اس کو پایا اور کامیاب بھی ٹھہرے۔ آج جس شہید کی برسی منائی جا رہی ہے، وہ ایسا ہی ایک درد مند تھا، اس کا جنون اس کا احساس، اس کی سوچ اور اس کی فکر اس کو عملی میدان میں وارد رکھنے کیلئے آمادہ رکھتی۔ اس نے کبھی وسائل کا رونا نہیں رویا، اس نے کبھی آسائشوں کی طلب نہیں کی۔ اس نے کبھی ساتھیوں کی کمیوں، کوتاہیوں، وسائل کی عدم دستیابی، مشکلات کے گھیرائو، مسائل کے انبار اور اپنوں کی جفاوں کا گلہ و شکوہ نہیں کیا، بلکہ ایک ہدف مقرر کے حصول کیلئے اپنے راستے پر چلتا رہا۔ اسے نام نہیں بنانا تھا، اسے پہچان کا ڈنکا نہیں بجانا تھا، اسے پوسٹرز اور بینرز پر اپنی تصاویر نہیں چھپوانا تھیں، وہ بالکل سادہ زیست تھا، اس کی زندگی بہت ہی عام سی فیملی کی طرح تھی، حالانکہ وہ اچھے بھلے زمیندار گھرانے کا اکلوتا وارث تھا، وہ جس مکان میں نشانہ بنایا گیا، وہ شاید دو کمروں کا عام سا سرکاری کوارٹر تھا، جس کے کمرے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

شہید علی ناصر صفوی اور اس کی اہلیہ جو اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی، اسے بائیس برس قبل جوہر آباد میں اس کی کم سن بیٹیوں اور والدہ کے سامنے شہید کیا گیا تھا، وہ شہادت کا ہمیشہ سے طلبگار تھا، اس کی زندگی اور راستے کا نتیجہ ایسی ہی موت کی صورت میں نکلنا تھا۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے اس نے دوستوں کے اصرار کے باوجود ہجرت نہیں کی، اسے علم تھا اور شاید احساس بھی کہ ہجرت زندگی کو بچا سکتی ہے، مگر اسے منظور نہیں تھا کہ اسے کوئی بھگوڑا کہہ کر یاد کرے۔ اس نے کسی کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ اس کے بارے میں ایسی زبان درازیاں کرے، در حالینکہ ہجرت و جہاد اسلام کے جڑے ہوئے موضوع ہیں۔ مگر لوگ کہاں معاف کرتے ہیں، ساری عمر کی خدمات کو، قربانیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کو بھول جاتے ہیں۔ جب خود تہی دامان ہوتے ہیں تو دوسروں کو بھی تنقید و الزامات کے ذریعے نیچا دکھانے کی سعی کرتے ہیں، ان کا قد دوسروں کو نیچا دکھا کر ہی ابھرتا ہے، جو ان کی بھول ہوتی ہے۔

اخلاص ہمیشہ عملی نظر آتا ہے، دکھاوا عارضی ہوتا ہے، علی ناصر صفوی اخلاص سے مرقع و مزین تھا، اس لیے آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی یاد کیا جا رہا ہے، اس کی اسلام حقیقی، امام راحل، انقلاب اسلامی، شہید قائد علامہ سید عارف حُسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے محبت، عقیدت اور لگائو بالکل خالص و بے لوث تھا، وہ ان کیلئے ہر خطر میں کود سکتا تھا۔ اس نے اپنی عملی زندگی سے ایسا ثابت بھی کیا تھا۔ اس کے جیسا کوئی اور نہیں تھا۔ اس کے قریبی دوست بھی اس جیسے نہیں تھے، نہ پہلے نہ اس کی شہادت کے بعد۔۔۔ لہذا علی ناصر صفوی اس قوم و ملت کے جوانوں میں اپنے جنون، خلوص، درد، احساس، ایثار کی یاد آوری کیساتھ یاد رکھا جائے گا۔
برسوں تجھے گلشن کی ہوا یاد کرے گی
خبر کا کوڈ : 1026728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام
خدا سلامت رکھے، بھائی کافی عرصہ کے بعد اسلام ٹائمز پر کسی نمود و نمائش کے بغیر ایک خالص تجزیاتی کالم پڑھنے کو ملا۔ واقعاً ان کے دوستوں میں نہ پہلے کوئی ان جیسا تھا، نہ ان کی شہادت کے بعد کوئی ان جیسا نکلا۔
خدا سلامت رکھے، بہت سے سوالات کے آپ نے کالم کے اندر ہی جوابات دے دیئے ہیں۔ سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ بہت شکریہ۔۔
ہماری پیشکش