0
Thursday 1 Feb 2024 22:16

عشرہ فجر مبارک

عشرہ فجر مبارک
تحریر: حسین شریعتمداری

1۔ 17 بہمن 1357ء خورشیدی، یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی 11 فروری سے چند دن پہلے اسرائیل کی جعلی حکومت کے اس وقت کے وزیر خارجہ ابا ایبان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان دنوں ایران میں جو تحریک اور جوش پیدا ہوا ہے، اگر وہ کامیاب ہوگیا تو ایک زلزلہ آجائے گا اور یہ زلزلہ دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تباہ کر دے گا۔ اس دن یعنی 17 بہمن 1357ء یعنی سات فروری 1979ء کو انقلاب ابھی اپنی آخری کامیابی تک نہیں پہنچا تھا، لیکن اسرائیل کے حکام کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ ابا ایبان کو کیسے معلوم ہوا کہ اسلامی انقلاب اپنی فتح سے موجودہ عالمی نظام کو تباہ کر دے گا؟!۔۔۔۔ ابا ایبان کو معلوم تھا کہ ایک عظیم واقعہ رونما ہو رہا ہے۔۔۔۔ اس نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خالص اسلام دوبارہ حکومت میں آرہا ہے۔ ایک ایسا واقعہ جس کے وقوع پذیر ہونے کے خلاف استکباری طاقتیں اور ظلم و جور کے حکمران 1400 سال سے زائد عرصے سے اس کے مقابلے میں کھڑے تھے۔

2۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو فرعون اور اس کے درباریوں نے (جنہوں نے آپ کے معجزے کو "جادو" سمجھنے پر اصرار کیا،) مصر کے ماہر ترین جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ جادوگروں نے اپنا جادو استعمال کیا اور بہت سے حاضرین کو دنگ کر دیا۔ لیکن جب حضرت موسیٰ نے اپنا عصا میدان میں پھینکا اور جادوگروں کے سحر کو تہس نہس کر دیا۔ تو کیا ہوا؟ "جادوگروں نے سجدہ کیا اور کہا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے، موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔۔۔ جادوگروں نے سجدہ کیا اور کہا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے۔ موسیٰ اور ہارون کا خدا ہمارا خدا ہے۔ "وَأُلْقِیَ السَّحَرَهًُْ سَاجِدِینَ * قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ * رَبِّ مُوسَى وَ هَارُونَ‌..." انہوں نے سجدہ کیوں کیا؟ وہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے تھے، وہی خدا جس نے موسیٰ اور ہارون کی پرورش کی؟!... وہ اپنے دور کے اعلیٰ ترین جادوگر تھے۔ وہ جادو جانتے تھے اور جانتے تھے کہ موسیٰ اپنی لاٹھی کے ساتھ میدان میں جو کچھ لائے تھے، وہ جادو نہیں ایک معجزہ ہے۔

3۔ تمام سیاسی تھیوریز میں بتایا گیا ہے کہ کسی حکومتی نظام کی نوعیت اور نوعیت کا جائزہ لینے کے لیے اس کی زندگی کے کم از کم 3 سال گزرنے چاہئیں۔ بعض نے 6 اور 7 سال بھی کہے ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب اور نظام اپنی فتح کے بعد کے پہلے دنوں سے استکباری طاقتوں اور اس کے پیروکاروں اور اتحادیوں کا ہر طرح سے مقابلہ کر رہا ہے اور تمام قوتیں اس انقلاب کے خلاف تلواریں سونتے ہوئی ہیں۔تمام استعماری طاقتیں اس نظام کو ختم کرنے کے درپے تھیں۔ یہ اس لئے اس نظام کی مخالف تھیں، کیونکہ سامراجی نظام جانتا تھا کہ حکمرانی کا کون سا ورژن تشکیل اور قائم ہونے جا رہا ہے۔ اسی دن، ایک مغربی خبر رساں ایجنسی نے (مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ میرے خیال میں یہ امریکن ایسوسی ایٹڈ پریس تھا) نے لکھا؛ "اسلام وہ جن ہے، جو چودہ سو سال بعد بوتل سے باہر آگیا ہے۔"

4۔ ہمارے مرحوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے خالص اسلام کے چہرے پر جمی صدیوں کی بدعت، کج روی، بدگمانی اور عدم آگہی کی خاک کو صاف کر دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالص اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ گویا بعثت کا مشن دوبارہ زندہ ہوا تھا۔ اس میں نہ کچھ کم کیا، نہ اضافہ کیا گیا ہے۔ حضرت امام خامنہ ای کے حکیمانہ ارشادات کے مطابق: "ایران کے عظیم اسلامی انقلاب نے عصر حاضر میں بعثت کے موضوع کی تجدید کی۔ یعنی خدا تعالیٰ نے ہمارے محترم امام  خمینی کو اس دور میں وہ جرات، ہمت، دور اندیشی، عزم بالجزم، خود اعتمادی، دلیری اور بلند فکر عطا کی، جو نبوت و امامت کے نظام کو تسلسل دینے کا باعث بنی۔ بعثت کا وہ سلسلہ جو وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا ہوا تھا، امام خمینی نے اسے روشن و تابندہ کر دیا۔ امام خمینی اسلام کی جامعیت کو عملی طور پر دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارے امام راحل نے ایک بار پھر خالص اسلام کو میدان عمل میں لایا۔ اس نظام اسلامی کے سامنے آنے کے بعد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدخواہوں اور جابروں کی مکروہ چالوں کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ انقلاب اسلامی ایران نے خالص اسلام محمدی کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔

5۔ خالص اسلام کی سب سے بنیادی خصوصیات میں سے ایک "انصاف کے قیام کی کوشش اور ظلم کے مخالفت" ہے۔ قرآن میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: "ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل اور معجزات کے ساتھ بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ لوگوں کے لیے کتاب اور میزان نازل کیا۔۔۔۔ ہم نے ایسا اس لیے کیا، تاکہ لوگ عدل و انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔" وہ اسلام جو ظالموں کے جبر اور ظلم کے سامنے خاموش ہو اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کی لالچ، بدعنوانیوں، لوٹ مار پر ساکت ہو اور محروموں اور مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند نہ کرے، وہ اسلام حقیقی اسلام نہیں ہے۔ امام خمینی کے نزدیک اس کا نام "امریکی اسلام" ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حقیقی اسلام حاکمیت کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کے بعد پہلی اور سب سے یقینی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تسلط کا نظام اور اس کے چھوٹے بڑے تمام اتحادی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ کیونکہ اسلامی نظام، سامراجی تسلط کے نظام سے بنیادی طور پر مختلف ہے اور اس کا وجود تسلط کے نظام کے وجود کو چیلنج کرتا ہے۔۔۔۔ اس نقطہ نظر سے اگر اسلامی انقلاب کی نوعیت پر غور کیا جائے تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے  کہ انقلاب کے تمام حامی اور خاص طور پر حکام اگر محروموں اور مظلوموں کے ساتھ نہیں ہے تو وہ اس انقلاب کی حقیقت سے دور ہیں۔

6۔ گذشتہ 45 سالوں میں جس راستے پر ہم نے سفر کیا ہے، اس پر نیم نگاہ  ڈالیں اور اپنے سفر کے نقطہ آغاز کا موجودہ مقام سے موازنہ کریں، جہاں ہم آج کھڑے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ ہم ابھی تک مطلوبہ مقام سے بہت دور ہیں، لیکن خواجہ شیراز کے بقول ہم منزل عشق کے راہی ہیں اور عدم کی سرحد سے موجودہ مقام تک طویل سفر کیا ہے۔
عشرہ فجر مبارک
خبر کا کوڈ : 1113300
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش