0
Tuesday 12 Mar 2024 11:30

جنگ غزہ اور امریکی منافقت

جنگ غزہ اور امریکی منافقت
تحریر: اتوسا دیناریان

امریکی حمایت کے سائے میں صیہونی حکومت کے جرائم کا تسلسل اور امداد کی ترسیل کے راستوں کی بندش اور غزہ کی پٹی میں خوراک اور ادویات کے داخلہ کی رکاوٹ نے جہاں شہداء کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے، وہاں اس کی وجہ سے خوراک کی کمی بھی ہوچکی ہے، جس سے اس خطے میں ادویات کا قحط پڑ چکا ہے۔ اسی تناظر میں یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے اعلان کیا ہے کہ شمالی غزہ میں بوڑھے افراد یکے بعد دیگرے بمباری میں یا بھوک اور طبی خدمات کی کمی کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں۔ غزہ میں شہداء کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہوچکی ہے، جن میں 92 فیصد عام شہری ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ بھوک، غذائی قلت اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مرچکے ہیں، جن کے نام ہسپتالوں میں درج نہیں ہیں۔

 غزہ کی صورتحال تشویشناک ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت امریکہ کی ہری جھنڈی اور حمایت سے فلسطینیوں کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا کی طرف سے اسرائیل کے حملوں کو روکنے کی خواہش کے باوجود واشنگٹن بھی دوہری پوزیشن لیتے ہوئے تل ابیب کی حمایت کر رہا ہے۔ اس تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے رفح پر اسرائیل کے حملے کو متضاد بیانات میں ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس حکومت کا دفاع بہت ضروری ہے۔ بائیڈن نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل کا دفاع اب بھی ضروری ہے اور اس کی کوئی سرخ لکیر نہیں ہے کہ ہم اس کو اسلحہ فراہم کرنا بند کر دیں، کیونکہ ان کی حفاظت کے لیے کوئی آئرن ڈوم نہیں ہے۔"

درحقیقت غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے ہی امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی رہا ہے اور اس نے تل ابیب کو وسیع سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ہتھیاروں کی مدد فراہم کی ہے۔ واشنگٹن کی حمایت غزہ میں جنگ بندی کے قیام کی کوششوں کے ناکام ہونے کا سبب بنی ہے۔ واشنگٹن نے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکت کے خاتمے کے لیے سفارتی حل کو بار بار روکا ہے۔ ان حمایتوں کی وجہ سے اسرائیل کھلے عام غزہ کے باشندوں کی نسل کشی میں ملوث ہے اور غزہ کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا بھی احترام نہیں کرتا، اس کے علاوہ روزانہ کے حملوں اور محاصرے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ قحط اور فوڈ انٹری کراسنگ کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ UNRWA جیسی بین الاقوامی تنظیموں کی امداد میں کٹوتی اسی سلسہ کی کڑیاں ہیں۔

اسرائیل کے جرائم کے حد سے بڑھنے کی وجہ سے یورپی اور امریکی سیاستدانوں پر رائے عامہ کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اس لیے یورپی ممالک کے بہت سے حکام نے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت کے باوجود، درحقیقت اس کی پالیسیوں پر تنقید کی اور مطالبہ کیا ہے کہ نسل کشی اور جرائم کا خاتمہ کیا جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ "جوزف بوریل" نے اس حوالے سے کہا ہے کہ "اگر آپ کو یقین ہے کہ غزہ میں بہت سے لوگ مارے جا رہے ہیں تو شاید آپ کو بہت سے لوگوں کو مارے جانے سے روکنے کے لیے کم ہتھیار بھیجنے چاہئیں۔" تاہم اس کے باوجود امریکہ حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ واشنگٹن کے حکام رائے عامہ کے سامنے صیہونی حکومت کے لیے سرخ لکیر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ اسرائیل کے لیے ضروری ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور تل ابیب کے مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ امریکہ کا یہ دوہرا مؤقف اتحادی کی طرف سے واشنگٹن کی تنقید کا باعث بھی ہے۔

اس تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے عہدیدار نے امریکہ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اگر عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک قتل عام ہے اور بہت سے لوگ مارے گئے ہیں تو شاید ہمیں ہتھیاروں کی فراہمی کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔" امریکہ کے اندر، بہت سے شہری، سول تنظیمیں اور سیاسی حکام اسرائیل کو امریکی حمایت ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، ایک آزاد سینیٹر، برنی سینڈرز کا کہنا ہے "واشنگٹن، اسرائیل کو مالی مدد فراہم کرکے غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی میں ایک ساتھی اور شراکت دار ہے۔" غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی حمایت کے جاری رہنے کا یقین رکھنے والا اسرائیل قتل و غارت گری جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ امریکی حکام اپنے دوہرے اور منافقانہ موقف کی وجہ سے اپنے خلاف جاری رائے عامہ کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1122113
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش