2
4
Saturday 30 Mar 2024 20:32

آزاد جرگے اور دینی مدارس کے بچوں کا مستقبل

آزاد جرگے اور دینی مدارس کے بچوں کا مستقبل
تحریر: نذر حافی

ہمارا معاشرہ بہت دیندار ہے۔ لوگوں میں علمائے کرام کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے غصّہ تھوک دیجئے۔ لعنتیں بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں۔ زمانہ ہی برا ہے اور قیامت آنے والی ہے، جیسے جملے بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر پائیں گے۔ مبینہ طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھائی نے اپنے والد کی مدد سے بائیس سالہ بہن کو گلا دبا کر قتل کر دیا۔قتل کے وقت کمرے میں باپ، بھابھی اور دوسرا بھائی بھی موجود تھا۔ قتل کرکے خاموشی سے تدفین کر دی گئی تھی۔ بعد ازاں مقتولہ کے بھائی شہباز اور بھابھی نے انکشاف کیا کہ قاتل اپنی بہن کے ساتھ زیادتی کا مرتکب بھی ہوتا رہا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہوا ہو، جیسا کہ باپ کے بارے میں بھی ایسا ہی سُننے میں آرہا ہے۔ اہلِ خانہ نے یہ سب اپنے سامنے باآسانی ہونے دیا۔ گھر والے آخر کیوں خاموش رہے۔؟

17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب یہ المیّہ ہوا۔ تدفین کے ایک ہفتے کے بعد پولیس کو اطلاع ملی۔ تعجب ہے کہ اس ایک ہفتے میں عوامِ علاقہ میں سے بھی کسی نے چُپ کا روزہ نہیں توڑا۔ لوگوں نے سوچا ہوگا کہ کہیں ہمارے بولنے سے مقدسات کی توہین ہی نہ ہو جائے۔ مقدسات کو بچانے کیلئے گذشتہ روز مولانا ابتسام الہیٰ ظہیر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ تاندلیانوالہ میں پہنچے۔ وہاں انہوں نے قاری ابوبکر صدیق معاویہ کے ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی والے مسئلے کو حل کروا کر فریقین کو بھائی بھائی بنا دیا۔ یوں مقدسات کی توہین ہوتے ہوتے بچ گئی۔ جب بھی کہیں ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اصلاح احوال کے حوالے سے سب سے پہلے توجہ دینی مدارس اور علمائے کرام کی طرف ہی جاتی ہے۔

دینی مدارس بچوں کیلئے مفت تعلیم، غذا اور رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔اسی لئے لوگ انہیں چندہ، فطرانہ اور ڈونیشن دیتے ہیں۔ ان پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ لوگ آنکھیں بند کرکے اپنے لختِ جگر ان میں تعلیم و تربیّت کیلئے داخل کروا دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے تربیتی مراکز دراصل یہی دینی مدارس ہیں۔ ہمارے ہاں شدّت پسندی کو بھی اُس وقت تک عروج نہیں ملا، جب تک کچھ دینی مدارس اس میں ملوث نہیں ہوئے۔ شدت پسندی کے ساتھ ساتھ اب آئے روز ہمارے سماج میں جنسی درندگی کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔دوسری طرف آپ صرف گذشتہ چند مہینوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو پے درپے دینی مدارس کے حوالے ایسی افسوسناک خبریں ملیں گی، جیسے: اسلام آباد تھانہ رمنا کے علاقے میں دینی مدرسہ میں زیر تعلیم طالبہ لاپتہ ہوگئی۔

دریں اثناء نئی آبادی علی پور میں واقع مدرسہ کے قاری کی طرف سے بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تھانہ شہزاد ٹاون میں ناصر نے مقدمہ درج کروایا کہ قاری عبدالرحمن نے اس کے بیٹے کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کیں، مدرسہ کے دیگر دو طلباء نے بھی بتایا کہ قاری انکے ساتھ بھی غلط حرکات کرچکا ہے۔ چکوال میں دینی تعلیم کے مدرسہ میں طالب علموں سے زیادتی کا افسوس ناک واقعہ سامنے آگیا۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے ایک طالب علم کے والد نے تھانہ میں مدرسہ کے دو اساتذہ کے خلاف درخواست دے دی۔ چکوال میں 14 طلباء کو  مدرسہ کے اساتذہ زیادتی کا نشانہ  بناتے رہے۔ متاثرہ تمام طلباء کی عمریں 12 اور 14 سال کے درمیان ہیں۔ ملزمان بچوں کو چاقو سے ڈراتے اور ان کے جسم پر Z کانشان بناتے تھے۔

حالات اتنے سنگین ہیں کہ تھانہ نارتھ کینٹ لاہور میں ایک طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ لاہور کے رہائشی ایک مفتی صاحب تین سال سے اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ کسی چھوٹے موٹے یا نوجوان مفتی کی بات نہیں ہو رہی۔ موصوف گزشتہ تقریباً 25 سال سے مدرسہ منظور الاسلامیہ میں بطور معلم کام کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے لاہور سے رکن بھی تھے۔ طالب علم کا کہنا تھا کہ جب وہ درجہ رابعہ یعنی چہارم میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اس وقت کے نگران مفتی نے ایک اور طالب علم سمیت ان پر امتحانات میں نقل کا الزام عائد کرتے ہوئے تین برس کے لیے ان کے وفاق المدارس کے امتحانات پر بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی۔

طالب علم نے پولیس کو مزید بتایا کہ مفتی نے ان سے کہا کہ اگر "وہ انھیں خوش کر دیا کریں گے تو میں وفاق المدارس والی پابندی بھی ہٹوا دوں گا اور امتحانات میں بھی پاس کروا دوں گا۔" طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اس کے بعد مفتی ہر جمعہ کے روز تقریباً 10 یا 11 بجے انھیں طلب کرتے تھے اور ان کے ساتھ غلط کاری کرتے تھے۔ تین سال تک بلیک میل ہونے کے بعد تنگ آکر طالب علم نے مدرسہ انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی کے خلاف شکایت کی۔ مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں، وہ ایسا فعل نہیں کرسکتے۔ طالبِ علم کے مطابق اس پر "مایوس ہو کر اس نے خود اس واقع کی ویڈیوز چوری بنانا شروع کیں۔"

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ یہ ثبوت اس نے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم مولانا حفیظ جالندھری کو بھی پیش کیے۔ اس نے پولیس کو چند آڈیو کالز کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کی، جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کس طرح مفتی نے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے کئی گنا زیادہ ایسی خبریں گوگل پر سرچ کرکے دیکھ لیجئے۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس کو سماج کی تربیّت کے حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ شدّت پسندی ہو یا جنسی بے راہروی، اس کے ڈانڈے جا کر کچھ دینی مدارس سے ہی ملتے ہیں۔ مدارس لوگوں کو جیسے ترغیب دیتے ہیں، لوگ وہی کچھ کرتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں جنوری سے جون 2023ء تک اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

ہمیں مولانا ابتسام الہی ظہیر صاحب کے حُسنِ نیّت سے انکار نہیں۔ لیکن انہوں نے طالبان کی طرح تاندلیانوالہ میں جو اپنا جرگہ لگا کر ماورائے عدالت جو کچھ کیا ہے، اس میں قوم کے نونہالوں اور معصوم طالب علموں کیلئے مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ قانون سے ماوریٰ ایسے جرگے دینی مدارس اور معاشرے میں جنسی جرائم کے مزید فروغ کا باعث بنیں گے۔ ہماری دانست میں ایسے واقعات کی قانونی طور پر تحقیقات ضروری ہیں، اسی میں دینی مدارس اور معاشرے کی بھلائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1125938
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
متفق
United States
اس ملک کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ آزادی ہے، نہ عوامی مسائل کی کسی کو فکر ہے، نہ انسانی حقوق والی کوئی بات ہے، نہ یہاں انسان انسان پر رحم کرتا ہے۔ جس کی لاٹھی ہے، اس کی بھینس۔ اب صحافت بھی بھینس کے آگے بین بجانے سے زیادہ نہیں۔ خود ہمارے صحافیوں کی اخلاقی اور تعلیمی صورتحال قابل رحم ہے۔ مولوی ابوبکر صدیق معاویہ جیسے روزانہ کئی کیس ہوتے ہیں، جنہیں دبا دیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ملک کا کیا بننے جا رہا ہے۔
ہماری پیشکش