0
Sunday 31 Mar 2024 21:11

غزہ جنگ روکنے کی دو صورتیں ہیں۔۔!!

غزہ جنگ روکنے کی دو صورتیں ہیں۔۔!!
تحریر: ایل اے انجم
 
غزہ میں جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود ظالم صیہونی ریاست کی بربریت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس تناظر میں امریکہ کی دوغلی پالیسی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ایک طرف سلامتی کونسل کی قرارداد کے دوران پہلی مرتبہ امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کرنے سے گریز کیا تو دوسری طرف آج ہی بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو تین ارب ڈالر مالیت کا جنگی سازوسامان جس میں تباہ کن بم شامل ہیں، اسرائیل کو فراہم کرنے کی منظوری دیدی۔ مغربی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان ہتھیاروں میں 25 ایف 35 اے جنگی طیارے، 1800 کے قریب 900 کلوگرام وزنی ایم کے 84 بم اور 500 کے قریب 226 کلو گرام وزنی ایم کے 82 بم شامل ہیں۔
 
غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کا امریکی ہتھیاروں پر بہت زیادہ انحصار رہا ہے۔ اس طرح غزہ کی تباہی میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ امریکی ہتھیاروں کی فراہمی سے غزہ جنگ کے طول پکڑنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں اور فی الحال جنگ بندی نظر نہیں آتی، صرف دو صورتین ہیں، جن کے ذریعے اسرائیلی بربریت کو لگام دیا جا سکتا ہے۔ ایک بھرپور مزاحمت ہے، جو حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین بھرپور طریقے سے کر رہے ہیں۔ پانچ ماہ کی مسلسل اور تباہ کن بمباری کے باوجود فلسطینی عوام کی استقامت تاریخ رقم کر رہی ہے۔ یہ جنگ جوں جوں طول پکڑتی جائے گی، صیہونی ریاست کے انہدام کی صورت مزید واضح ہوتی چلی جائے گی۔ جنگ جس کے ساتھ اور جس صورت میں بھی ہو، تباہ کن ہوتی ہے، چاہے مخالف سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔ سویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
 
دوسری صورت ہمارا اجتماعی کردار ہے۔ 57 اسلامی ممالک میں حزب اللہ، یمن اور ایران کے علاوہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں، جو کھل کر فلسطین کا ساتھ دے رہا ہو۔ تو اس صورتحال میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔؟ اسرائیلی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی کا ایک اہم اور بنیادی کردار معیشت ہے۔ یہودی چونکہ ذہین اور شاطر ہیں۔ ان کی لانگ ٹرم پلاننگ بے مثال ہے۔ ٹیکنالوجی اور معیشت اسرائیلی منصوبہ سازوں کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہیں۔ اسی پلاننگ کے تحت دنیا کی تقریباً تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تانے بانے اسرائیل یا یہودیوں سے جا ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حکومت ہے، یہی کمپنیاں حتمی فیصلہ ساز ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان اکثر یہودی ہیں۔
 
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں 620 ہیں، ان کے مجموعی اثاثے 50 ٹریلین ڈالرز سے زائد ہیں، جبکہ ایشیا کی معیشت پر 40 بڑی کمپنیاں قابض ہوچکی ہیں۔ بدقسمتی سے اسلامی ممالک کے پاس ایک بھی ملٹی نیشنل کمپنی نہیں، جو قابل ذکر ہو۔ تقریباً 1200 ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت دنیا میں کام کر رہی ہیں، 600 کمپنیاں ان میں قابل ذکر ہیں، جن میں سے 161 امریکا، 128 جاپان اور 125 یورپ کی ہیں۔ دنیا کے تقریباً 245 ممالک پر یہ 600 کمپنیاں حکومت کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں اس قدر طاقتور ہوچکی ہیں کہ جب چاہیں اپنی مرضی کے لوگ اقتدار میں لے آتی ہیں۔
 
جنگ کے آغاز میں مسلم ممالک میں بائیکاٹ مہم پر مغربی کمپنیوں کی دیواریں ہل گئی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ مہم کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اگر آج ہم اس مہم کو اپنے اوپر واجب قرار دیں تو اس کے اثرات دو دنوں میں ہی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ کیونکہ صیہونی ریاست کے ستون کا کام کرنے والی یہ کمپنیاں تقریباً 40 فیصد منافع مسلم ممالک سے سمیٹ رہی ہیں۔ یوم القدس کے اجتماعات میں اس مہم کی بھرپور تشہیر و تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ چلیں ہم فلسطین جا کر نہیں لڑ سکتے، لیکن ہم اسرائیل کو فائدہ دینے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے تو لڑ سکتے ہیں۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صیہونی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہم اس ہڈی کو بڑی آسانی سے توڑ سکتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 1126093
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش