0
Monday 8 Apr 2024 01:48

رفح پر حملے کی دھمکی، بڑھک یا حقیقت؟

رفح پر حملے کی دھمکی، بڑھک یا حقیقت؟
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
غزہ پر صیہونی جارحیت آغاز ہوئے 184 دن گزر چکے ہیں۔ اب تک غاصب صیہونی رژیم معصوم بچوں، خواتین اور عام شہریوں کے قتل عام کے علاوہ کوئی بھی مبینہ ہدف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ صیہونی فوج کی ناکامی اس وقت مزید عیاں ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک غزہ سے مقبوضہ فلسطین کی جانب راکٹ فائر کئے جا رہے ہیں اور غزہ میں فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں صیہونی فوج کا جانی اور مالی نقصان جاری ہے۔ مزید برآں، آج صیہونی رژیم نے غزہ کے شہر خان یونس سے اپنی فوج بھی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس ذلت آمیز شکست کی خفت مٹانے کیلئے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کے جنوبی شہر رفح پر زمینی حملے کی دھمکی دی ہے۔
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو گذشتہ تقریباً دو ماہ سے مسلسل رفح شہر پر زمینی حملے کی دھمکی دیتا آیا ہے۔ یاد رہے غزہ کے جنوب میں واقع رفح شہر وہ واحد شہر ہے جہاں اب تک صیہونی فوج نے زمینی حملہ نہیں کیا اور وہاں تقریباً 15 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی مہاجرین نے پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ نیتن یاہو نے آخری بار کل اتوار کے روز رفح پر زمینی حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا: "کسی قسم کا عالمی دباو ہمیں جنگ کے تمام اہداف حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا جن میں حماس کا مکمل خاتمہ، تمام یرغمالیوں کی آزادی اور اس بات کی گارنٹی فراہم کرنا شامل ہے کہ آئندہ غزہ سے اسرائیل کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو گا۔ ہم ان اہداف کے حصول کیلئے رفح میں بھی فوجی کاروائی کریں گے۔" حقیقت یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو رفح پر زمینی حملہ انجام دینے کی پوزیشن میں ہوتا تو وہ اس کام میں ایک دن کی تاخیر بھی نہ کرتا۔
 
لیکن نیتن یاہو بخوبی جانتا ہے کہ یہ زمینی حملہ ممکن ہے اس کی سیاسی زندگی کا اختتام اور حتی غاصب صیہونی رژیم کے وجود کے خاتمے کا آغاز ثابت ہو۔ اس بات کیلئے بہت سے دلائل پائے جاتے ہیں جنہیں مختصر طور پر درج ذیل صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1)۔ غزہ جنگ کے طول پکڑ جانے، اب تک مبینہ فوجی اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہ ہونے، غزہ میں صیہونی فوج کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو جانے نیز سینکڑوں سپاہیوں کا فوج میں سروس سے انکار کر دینے کے باعث اس وقت صیہونی فوج شدید تھکاوٹ اور انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔
2)۔ صیہونی رژیم رفح پر زمینی حملے کے ذریعے اپنا اصلی ترین مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے جو غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر فلسطینیوں کا انخلاء اور انہیں وہاں سے نکل کر صحرائے سینا چلے جانے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مقصد ناقابل حصول ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی اکثریت جلاوطنی پر شہادت کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ دنیا کے اکثر ممالک بھی غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کے مکمل انخلاء کے مخالف ہیں۔
 
3)۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو بھوکا رکھ کر انہیں حماس اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی حکمت عملی پوری طرح شکست کا شکار ہو چکی ہے۔ بلکہ اب تک اس حکمت عملی کے برعکس نتائج سامنے آئے ہیں اور اہل غزہ نے جنگ کے بعد غزہ کی پٹی پر حماس کی متبادل طاقت کو حکمفرما کرنے پر مبنی امریکی اور اسرائیلی سازش پر پانی پھیر دیا ہے۔
4)۔ گذشتہ تقریباً چھ ماہ سے غزہ میں جاری صیہونی جارحیت اور ظلم و ستم نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف نفرت کی شدید لہر پیدا کر دی ہے۔ آج عالمی رائے عامہ میں صیہونی رژیم اور صیہونیت کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن تصور کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر نفرت کی اس فضا نے حتی صیہونی حکمرانوں، تھنک ٹینکس اور ان کے حامیوں کے دل میں بھی شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے جس کے باعث حتی غاصب صیہونی رژیم کے قریبی ترین اتحادی ممالک رفح پر زمینی حملے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
 
5)۔ شاید غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور ٹینکوں کا غزہ کے شہروں اور دیہاتوں پر حملہ "آسان ہو" لیکن ان شہروں اور دیہاتوں پر کنٹرول قائم کر کے وہاں باقی رہنا ناممکن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ ٹریپس ہیں جو فلسطینی مجاہدین نے جگہ جگہ صیہونی فوجیوں اور ان کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے خلاف تیار کر رکھے ہیں۔ درحقیقت اسلامی مزاحمتی گروہوں نے یہ ٹریپس "گوریلا جنگ" کی طرز پر لگائے ہیں جو انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہیں اور وہ ان کے ذریعے اب تک صیہونی فوج کے 1270 ٹینک، بکتر بند اور فوجی گاڑیاں تباہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ ہزاروں صیہونی فوجی بھی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اکثر ممالک اور عالمی تنظیمیں بھی صیہونی رژیم کو رفح پر ممکنہ فوجی جارحیت پر خبردار کر چکے ہیں۔
 
ریٹائرڈ صیہونی جنرل اسحاق بریک کی جانب سے ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسرائیل جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور اس کے اندرونی حالات لبنان، عراق اور یمن سے علاقائی جنگ کیلئے بالکل مناسب نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہمیں معروف صیہونی تاریخ دان پروفیسر یووآل نوح ہراری کی جانب سے اس حقیقت کی تصدیق کی ضرورت بھی نہیں کہ "حماس اس جنگ میں کامیاب ہو چکی ہے اور اپنے زیادہ تر اہداف حاصل کر چکی ہے۔" اس نے مزید کہا: "ضروری نہیں جیت اس کی ہو جو زیادہ انسانوں کا قتل کرے، زیادہ قیدی بنائے، زیادہ گھر مسمار کرے یا زیادہ زمینوں پر قبضہ کرے۔۔۔ فاتح وہ ہے جو اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور حماس نے یہ کام کر دکھایا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ اس نے 7 اکتوبر کے آپریشن (طوفان الاقصی) کے ذریعے اسرائیل اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا امکان ختم کر دیا ہے۔"
خبر کا کوڈ : 1127421
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش