0
Monday 22 Mar 2010 11:55

پاکستان پر امریکہ کی بے اعتمادی کب ختم ہو گی؟

پاکستان پر امریکہ کی بے اعتمادی کب ختم ہو گی؟
امریکی سی آئی اے کے سربراہ مسٹر لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ امریکی حکام کی پاکستان پر بے اعتمادی کسی حد تک موجود ہے اور اسے ختم ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ملا برادر سمیت طالبان رہنماؤں کی گرفتاریوں سے طالبان کے ساتھ جاری مفاہمتی عمل پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ اثرات منفی ہو سکتے ہیں یا مثبت تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم ان اثرات کی نوعیت معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نعمان بشیر کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ کے موقع پر روزنامہ جنگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان سکیورٹی فورسز کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی فورسز کی اس تحسین و تعریف کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ میں اکثر نامعلوم امریکی ذرائع کے حوالے سے جن تحفظات و خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے اور پاکستان میں امریکی حکام پاکستان پر جس بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ جی ہاں کچھ بے اعتمادی اب بھی موجود ہے اسے ختم ہونے میں بھی کچھ عرصہ درکار ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ پاکستان شروع دن ہی سے امریکہ کا حامی اور اتحادی رہا ہے۔روس کے خلاف سرد جنگ میں بھی امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا لیکن امریکی حکام کا طرزِ عمل پاکستان کے اس تعاون و اشتراک کے باوجود منفی اور پاکستان کے مفادات کے خلاف رہا،یہاں تک کہ 1962ء میں جب بھارت اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں نے جنگ کی شکل اختیار کر لی اور بھارت مقبوضہ کشمیر سے اپنی تمام افواج چین بھارت سرحدوں پر لے گیا تو پاکستان نے اس صورتحال سے بھی فائدہ اٹھانے اور مقبوضہ کشمیر میں پیش قدمی سے گریز کیا جبکہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو جو بے پناہ فوجی امداد،اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا گیا اس کا تعلق پہاڑی جنگ سے نہیں بلکہ میدانی جنگ سے تھا چنانچہ عسکری امور کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بھارت یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔یہ خدشہ ایک حقیقت ثابت ہوا اور بھارت نے 1965ء کی جنگ میں بے دریغ یہ اسلحہ اور گولہ بارود پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کے دفاعی استحکام میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل سے ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرنے کا کامیاب تجربہ شروع سے لے کر آج تک امریکہ کے بے بنیاد خدشات اور کڑی تنقید کا ہدف بنا ہوا ہے۔ 
حال ہی میں روس اور بھارت کے درمیان ایک درجن سے زائد دفاعی معاہدوں کے تحت روس بھارت کو 10 بلین ڈالرز سے زائد مالیت کا اسلحہ فراہم کر ے گا اور اس راہ میں اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی تو اسے بھی دور کر دیا جائے گا۔امریکہ بھی ان معاہدوں پر مہر بلب ہے۔اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص سیاسی شعبوں میں قومی مفادات سے قطع نظر بھرپور تعاون کے باوجود پاکستانی عوام 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکی یقین دہانی کے باوجود ساتویں امریکی بحری بیڑے کی آمد کی راہ تکتے رہ گئے۔
پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی اور جب روس نے بحیرہ ہند کے گرم پانیوں تک رسائی اور مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنایا تو پاکستان نے امریکہ کا اتحادی ہونے کے حوالے سے روسی جارحیت کی بھرپور مخالفت کی اور اس گرم جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے 50 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو طویل عرصہ تک نہ صرف پاکستان میں پناہ دی بلکہ ان کی دیکھ بھال پر بین الاقوامی برادری کی امداد کے علاوہ پاکستان اپنے وسائل سے روزانہ ایک کروڑ روپے خرچ کرتا رہا اور آج بھی 25لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین نہ صرف پاکستان میں موجود ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی اور فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ہماری معیشت کو 40ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔لیکن اس حوالے سے تمام امریکی وعدے اور یقین دہانیاں نہ صرف نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں بلکہ ذمہ دار امریکی حلقوں اور افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔پاک فوج کے ہزاروں جوان اور بڑی تعداد میں اہلکار دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔
اس پس منظر میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ کے پاکستان پر بے اعتمادی کے ریمارکس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
پاکستان کے متعلق امریکہ کی اس منفی سوچ اور پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں اور دوستی کے تقاضے پورے کرنے کے باوجود عدم تعاون اور عدم اعتماد کے اظہار ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور اکثر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے متعلق ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے میں تاخیر نہ کرے اور وسیع تر قومی و ملکی مفادات،آزادی،سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے پالیسی وضع کی جائے۔پاکستان کی 60 سالہ دوستی کے باوجود پاکستان کی حکومت اور عوام کی امریکی حکام کے مثبت طرزِ عمل اور پاکستان کے مفادات کے تحفظ سے وابستہ تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں بلکہ امریکہ کی تمام ہمدردیاں آج بھی صرف بھارت کے لئے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر خارجہ کی قیادت میں امریکہ کا دورہ کرنے والا پاکستانی وفد اور اس کے تمام ارکان ماضی کے ان تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے بھرپور تیاری کے ساتھ امریکی حکام سے مذاکرات کے دوران کھل کر بات کریں اور امریکی رویئے کے خلاف احتجاج سے بھی گریز نہ کیا جائے۔


خبر کا کوڈ : 22385
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش