0
Saturday 29 May 2010 09:55

لاہور میں دہشتگردی کے دو واقعات

لاہور میں دہشتگردی کے دو واقعات
 لاہور میں جمعہ کے روز جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو کے مصروف ترین اور گنجان آباد علاقوں میں قادیانیوں کی دو عبادت گاہوں پر عین اس وقت حملہ کر دیا،جب ان میں موجود ڈیڑھ سے دو ہزار افراد عبادت میں مصروف تھے۔دہشت گردوں نے جس انداز میں بہ یک وقت ان دونوں عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا اور جس طرح اہم مقامات کو اپنے قبضے میں لے کر فائرنگ شروع کر دی اور دستی بم پھینکے،اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محض ایک اتفاقی واقعہ نہ تھا بلکہ سب کچھ پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا تھا۔
ان سطور کے لکھے جانے تک آنے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 80 ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 100 کے قریب بتائی گئی ہے۔ماڈل ٹاؤن سے گرفتار ہونے والے ایک خودکش حملہ آور کی جیکٹ کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے جبکہ ایک حملہ آور کے مارے جانے اور تین مشتبہ افراد کے گرفتار ہونے کی اطلاع بھی ہے جبکہ گڑھی شاہو میں بھی ایلیٹ فورس نے کمانڈو ایکشن کے بعد قادیانی عبادت گاہ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے اور یرغمالیوں کو رہائی دلا دی ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے ذاتی طور پر اس جگہ کا معائنہ کر کے سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال افراد کو بحفاظت بازیاب کرانے کی جو ہدایت دی،وہ اس امر کی غماز ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کی جدوجہد کو ترجیح دیتے رہے،جو ایک خوش کن امر ہے،لیکن حالات کا یہ پہلو بہر طور تشویشناک اور فکر انگیز ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے اداروں کو اس بات کا علم تو ہو جاتا ہے کہ کس عمارت،کس ادارے اور کونسی غیر مسلم اقلیتی عبادت گاہ پر حملہ ہونے کا امکان ہے۔لیکن ان تمام تر اطلاعات کے باوجود وہ دہشت گردوں کو اپنا وار کرنے سے پہلے ہی گرفت میں لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔مذکورہ صورتحال سے حساس اداروں کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت واضح ہے۔ اس سے پیشتر بعض جگہوں پر مسیحیوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے کے لئے ان پر دھاوا بولنے کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔ان کے بعد اب پاکستان کی ایک اور غیر مسلم اقلیت کو دہشت گردی کا کسی بھی حیلے یا بہانے سے ہدف بنانا ایک نہایت ہی افسوسناک سانحہ ہے۔جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق پاکستان میں ہر مذہب اور ہر عقیدے کے افراد کو اپنی من مرضی اور صوابدید کے مطابق عبادت کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے اور ان کی ادائیگی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ ڈالنا بانی پاکستان کے ارشادات اور ملک کے آئین کی روح کے منافی ہے۔
 لاہور میں دہشت گردی کے ان سانحات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انسانی جانوں کو تحفظ دینے کو جس طرح اولین ترجیح دی وہ بہت قابل اطمینان ہے۔ایسے کسی بھی سانحہ کے موقع پر متاثرین کے دل یقینا بے حد دکھی ہوتے ہیں اور اس پس منظر میں اگر وہ کوئی تلخ و ترش گفتگو بھی کر دیں تو اس کو نظر انداز کر دیا جانا چاہئے۔لیکن ماڈل ٹاؤن کی عبادت گاہ میں جس طرح سکیورٹی کے اہلکاروں کو بروقت اندر جانے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا اسے کسی طرح درست لائحہ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیونکہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری طور پر اپنی کارروائی کرنے کا موقع دے دیا جاتا۔تو شاید اس قدر ہلاکتیں نہ ہوتیں اور دہشت گردوں سے امکانی حد تک جلد چھٹکارا حاصل کر لیا جاتا۔
دہشت گردی ایک بدترین ناسور ہے،جس نے اپنے نقطہ نظر پر حد سے زیادہ اصرار کرنے اور اسے بزور قوت دوسروں سے منوانے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔اس لئے اگر معاشرے کے تمام طبقات آپس میں مل جل کر رہنے کی عادت ڈالیں تو ہمارے خیال میں اس سے قیام امن کی قوتوں کو تقویت ملے گی اور ملک کو تعصب،ضد اور دہشت گردی ہر بلا سے نجات مل جائے گی۔
 "روزنامہ جنگ"

خبر کا کوڈ : 26945
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش