0
Tuesday 7 Jul 2015 16:53

مسئلہ قدس اب ہماری کونسی ترجیح ہے؟

مسئلہ قدس اب ہماری کونسی ترجیح ہے؟
تحریر: ثاقب اکبر

چند برس پیچھے جا کر دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ مسئلہ قدس اور فلسطین کا قضیہ عالم اسلام کا سب سے بڑا غم تھا۔ اسی مسئلے کی وجہ سے مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی (OIC) معرض وجود میں آئی۔ اسرائیل کے وجود کو جسد اسلامی میں ایک ناسور کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ مسلمان ہی نہیں دنیا کے غیر جانبدار اور آگاہ انسانوں کی بھاری اکثریت فلسطینی مظلوموں کے ساتھ تھی۔ غیر جانبدار ملکوں کی تحریک نے کبھی اسرائیل کو رکنیت نہیں دی۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک اسرائیل کو سامراج کی پیداوار سمجھتے تھے اور اس کے ہر جارحانہ اقدام کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ شاید ہم تاریخ میں کچھ زیادہ پیچھے چلے گئے۔ ابھی دس سال نہیں گزرے کہ عالم اسلام کے لئے اہم ترین معاملہ مسئلہ فلسطین ہی تھا۔ جب ترکی سے جانے والے فریڈم فلوٹیلا کے انسانی حقوق کے نہتے کارکنوں پر اسرائیلی فوجیوں نے جارحیت کی تو پوری دنیا سے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھی۔ اس آواز میں صہیونیت کے مخالف یہودی مذہبی راہنماؤں، عالمی شہرت کے حامل حقوق انسانی کے کارکنوں اور مسیحی دنیا کے بہت سے نمائندہ افراد جن میں مذہبی اور سیاسی راہنما بھی تھے، کی آواز بھی شامل تھی۔

آج کان دھر کے سنیے، ہنگامۂ ہاؤ ہو میں آپ کو یوں معلوم ہوگا جیسے فلسطینی مظلوموں کی آواز کہیں دور، بہت دور سے مشکل سے سنائی دے رہی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب سے بڑا مسئلہ ’’داعش‘‘ ہے یا پھر یمن کے ’’حوثی باغی‘‘ ہیں۔ اسرائیل کو وجود بخشنے والی اور اس کے تمام تر ناز نخرے خرچوں سمیٹ اٹھانے والی عالمی طاقتوں کا اتحاد آج داعش کے خلاف سرگرم ہے۔ البتہ یہ سرگرمی ایسی ہے جس سے داعش کی دہشت کا دائرہ سمٹنے کے بجائے وسیع ہوتا جا رہا ہے اور ’’حوثی باغیوں‘‘ کے خلاف وہ ’’عرب اتحاد‘‘ سرگرم جارحیت ہے، جس نے آج تک اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سعودی بادشاہ کے فرزند عزیز نے یمن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حضرموت کا یمنی صوبہ سعودی عرب کے حوالے کردے تو سعودی عرب اس کے خلاف فوجی کارروائی بند کردے گا۔ گویا پھر حوثی باغی نہیں رہیں گے۔ ایسے میں فلسطین اور قدس شریف کی بات کون کرے۔
کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خوشبو سے
گلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے

کیا فلسطین میں اسرائیل نے جارحانہ کارروائیاں بند کردی ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے، کیا نئی یہودی بستیوں کی تعمیر رک گئی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسرائیل کی جارحیت، توسیع پسندی اور ستم رسانی کے سلسلے اسی طرح جاری ہیں، فرق صرف یہ پڑا ہے کہ اب عالم اسلام کے کانوں تک مظلوم فلسطینیوں کی خبریں پہنچنا بند ہوگئی ہیں یا بہت کم ہوگئی ہیں۔

مصر جس کو صہیونیت کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ ہونا تھا اور جس نے سابق صدر سادات کی سربراہی میں صہیونی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے، آج داعش اور دیگر انتہا پسند قوتوں سے نبردآزما ہے۔ شام جو عملی طور پر صہیونیت کے خلاف علاقے کی واحد قوت رہ گیا تھا، آج داخلی مصیبتوں میں گھر چکا ہے۔ حماس عزیمت و جہاد کی پرچم بردار تھی اور اس کی جہادی روش اور حریت پسندی کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا ہی اسے دہشت گرد قرار نہ دیتے تھے بلکہ علاقے کی رجعت پسند عرب حکومتیں بھی اسے ناپسند کرتی تھیں اور بعض نے باقاعدہ اسے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا، اس کے لئے علاقے میں ایک ہی قابل اطمینان پناہ گاہ تھی یعنی شام۔ آج وہ حماس گومگو کی کیفیت میں ہے۔ کبھی قطر کی طرف اس کی نظریں ہیں اور کبھی سعودی عرب کی طرف حسرت بھری نگاہیں۔ ایران جو کبھی اس کے لئے ایک قابل اعتماد سرپرست تھا، رجعت پسند عربوں کی مخالفت کی وجہ سے حماس کو اس سے تعلقات نبھانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ حزب اللہ جو حماس اور دیگر حریت پسند قوتوں کے لئے ڈھارس کی حیثیت رکھتی تھی، اگرچہ عملی طور پر وہ اب بھی ہے، لیکن اب رجعت پسند ایک ہی سانس میں داعش اور حزب اللہ کو دہشت گرد گروہ قرار دے کر عرب عوام کی فکر کو متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔

داعش اور النصرہ جیسے گروہ اسرائیل کی آنکھ کا تارا ہیں۔ ان کے زخمیوں کا علاج اسرائیلی ہسپتالوں میں ہوتا ہے اور اسرائیل کی طرف سے بھی انھیں اسلحہ اور دیگر وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔ اسرائیل ان پر خوش کیوں نہ ہو، کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے بجھتے ہوئے خوابوں کے چراغ پھر سے روشن کر دیئے ہیں۔ حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی کے ہاتھوں مسلسل ہزیمتیں اٹھانے والے اسرائیل کے لئے یہ تنظیمیں نئی امید بن کر سامنے آئی ہیں۔ مسلمانوں کو مل کر سرطان کے اس صہیونی پھوڑے کا خاتمہ کرنا تھا، جبکہ وہ آپس میں دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل کی تو مراد بر آئی ہے۔ آزادی اور حریت کی قوتوں سے پیہم شکستیں کھانے کے بعد اسرائیل کے یہودی بڑی تعداد میں اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے کے لئے تیار ہوچکے تھے اور لاکھوں واپس بھی چلے گئے تھے، لیکن موجودہ حالات میں کیا صہیونیت کے لئے کوئی انتباہ علاقے کے ممالک کی طرف سے متوقع ہوسکتا ہے؟ حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آئے تو بظاہر ایسا ممکن نہیں لگتا۔ تاہم اللہ کی حکمتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے خزانۂ علم و قدرت میں کیا کیا تدابیر پوشیدہ ہیں، کوئی اسرار الٰہی کا راز دار ہی واضح طور پر کچھ کہہ سکتا ہے۔ البتہ ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیش گوئیاں ضرور پوری ہو کر رہیں گی۔ اللہ مستضعفین کو مستکبرین پر ضرور غلبہ عطا کرے گا۔ اللہ کمزور کر دیئے جانے والے انسانوں پر ضرور احسان کرے گا اور اپنی زمین کی خلافت ان کے سپرد کرے گا۔ شیطان اور طاغوت کی تدبیریں ضرور ناکام ہوں گی۔ ظلم کی سیاہ رات چھٹ جائے گی اور عدل کی روشن صبح طلوع ہوگی۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
خبر کا کوڈ : 472156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش