3
2
Wednesday 30 Dec 2015 14:46

دفاع حرم آل ؑ رسول ﷺ اور امام زادگان عشق

دفاع حرم آل ؑ رسول ﷺ اور امام زادگان عشق
تحریر: عرفان علی

امام زادہ کسے کہتے ہیں؟ امام معصوم کی اولاد کو اور خاص طور پر نیک و صالح اولاد کو۔ لیکن امام زادگان کی ایک قسم وہ بھی ہے جو قرآن و اہلبیت ؑ سے تمسک رکھتے ہوئے عشق اہلبیت ؑ میں اسلام ناب محمدی اور مقدسات اسلام کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ امام معصوم کے صالح فرزند بت شکن خمینی ؒ کا یہ فرمان شلمچہ میں جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ شہداء امام زادگان عشق ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر کو مسمار کیا گیا۔ ایک دور تھا کہ جب جنت البقیع میں بزرگان اسلام کے مزارات مقدسہ اور قبور مطہر زمین بوس کر دی گئیں۔ پتہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا، فقط اس لئے کہ دنیا میں امام زادگان عشق کی کمی تھی یا وہ اتنے طاقتور نہیں تھے کہ دنیا بھر سے وہاں پہنچ کر حرم آل رسول اللہ (ص) کا دفاع کرسکیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ بڑی تعداد میں وہاں جاسکیں اور ابلاغ کے اتنے ذرائع بھی نہیں تھے کہ ان تک بروقت یہ خبریں پہنچتیں۔ امام زادگان عشق کا یہ قبیلہ آج پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ امام حسین ؑ کے ساتھ 72 افراد اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور آج 72 لاکھ سے بھی زائد امام زادگان عشق سر پر کفن باندھ کر حرم آل رسول اللہ (ص) کے دفاع کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔

چہ عجب کہ پوری دنیا سے تکفیری وہابیوں کو، صہیونی سعودی، امریکی ایجنٹوں کو تو یہ سہولت حاصل ہو کہ پوری دنیا میں جہاں چاہیں پہنچیں اور دہشت گردی کریں اور کوئی یہ کہنے والا نہ ملے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے یہ تکفیری دہشت گرد کیوں اور کیسے عراق، شام، لیبیا اور دیگر جگہوں تک پہنچے یا پہنچائے گئے۔ لیکن ان خبیث دہشت گردوں سے مزارات و مقامات مقدسہ کو بچانے والوں کا شجرہ نسب تک بیان کر دیا جائے کہ جی پارا چنار سے کیوں گئے، افغانستان سے کیوں گئے؟ کس کی جنگ لڑنے گئے؟ جواب تو سبھی کو معلوم ہے کہ ایران کی حکومت خطرے میں نہیں ہے۔ خطرہ اہل بیت نبوت ﷺ کے حرمین شریفین کو ہے یا صحابہ کرام کے مزارات و قبور مقدسہ کو۔ خطرہ ایران کو نہیں بلکہ شعائر اسلام کو ہے۔ میزائل امام علی نقی ؑ اور امام حسن عسکری ؑ کے حرم مطہر پر فائر کئے جاتے ہیں۔ راکٹ اور بم جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے حرم شریف پر داغے جاتے ہیں۔ یہ مزارات مقدسہ عراق اور شام میں ہیں۔ معلوم ہے کہ ان پر حملہ آور تکفیریوں میں کوئی سعودی عرب سے آیا ہے تو کوئی اردن سے، کوئی قطر سے تو کوئی ترکی سے، کوئی پاکستان سے تو کوئی یورپ و امریکا سے۔

حقیقت کا یہ رخ چھپا کر دوسرا رخ بیان کرکے داستان شروع کرنے والوں کی خیانت کا گلہ شکوہ کرکے وقت ضائع کیوں کیا جائے۔ مسئلے کا ایک ہی حل تھا اور وہ اسی طریقے سے حل ہو رہا ہے۔ اربوں کھربوں ڈالر کے اسلحے اور ذرائع ابلاغ سے جھوٹ کا پرچار کرکے اگر کوئی جنگ جیت سکتا ہوتا تو آج امریکا پوری دنیا میں ذلیل و خوار اور رسوا نہ ہوتا۔ آج دنیا میں امریکی اتحاد میں مشکل سے چالیس تا ساٹھ ممالک نہ ہوتے بلکہ پوری دنیا ہی ان کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوتی۔ دنیا میں تقریباً دو سو ممالک ہیں، یعنی آدھے بھی امریکی سعودی اتحاد کا حصہ نہیں بنتے۔ اقوام متحدہ میں تو انہیں ڈرا دھمکا کر ووٹ لینا ایک آسان عمل ہے لیکن میدان جنگ میں انہیں لے کر آنا بہت مشکل کام ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ دنیا بھر کے سعودی نواز مسلمان نما نادانوں اور انسان کے روپ میں موجود تکفیری درندوں کو عراق اور شام میں جمع کرنے والے ملکوں اور اس پورے طریقہ کار کی تفصیل کیوں بیان نہیں کی جاتی۔ تصویر کا یہ پہلا رخ کیوں چھپا دیا گیا ہے۔ اس قبیح عمل کا جائز ردعمل کرنے والوں کو کیوں ولن بنا دیا گیا ہے۔ لکھ چکا ہوں کہ جنگیں اس طرح جیت سکتے ہوتے تو جیت چکے ہوتے۔

فوجی ماہرین سے پوچھو! عسکری و سیاسی تجزیہ نگاروں سے پوچھو! سبھی اس نکتے پر متفق ہیں، سبھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جناب! امریکا اعتراف کرچکا ہے کہ اس جنگ کو وہ جیت نہیں سکے ہیں۔ تو آج پاکستان کے بعض تکفیری نواز ذہنی مریض اگر اس شکست کی بھڑاس نکال رہے ہیں تو کیا ہوا۔ جھوٹ پر جھوٹ لکھ کر خفت مٹا رہے ہیں تو کیا ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہزارہ چنگیزی قبیلہ ہونے کی وجہ سے جنگ جو ہے! بہت خوب، ہندستان پر حکومت کرنے والے مغل بادشاہ کس کی نسل میں سے تھے! وہ عرب جو بیٹیوں کو دفن کر دیتے تھے اور وہ بنو امیہ جنہوں نے جوانان جنت کے سردار امام حسین ؑ کا خون ناحق بہایا، ان کی باقیات کے بارے میں کیا کہیں گے، یہی سعودی وہابی و تکفیری۔ ہندہ جگر خوار کی طرح انسانوں کا دل جگر چبانے والے عرب تکفیری دہشت گرد، یہ کس کی نسل سے ہیں! کچھ ان کا بھی شجرہ نسب بیان ہو۔ جس ایران کی برائی ہو رہی ہے، اس کی وسعت قلبی کا عالم یہ ہے کہ سید جو عرب نسل سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں ولی فقیہ تسلیم کیا ہے، ایرانی ریاست کے طاقتور سربراہ ایرانی النسل نہیں۔ امام خمینی کے اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے ایران گئے اور امام خامنہ ای فارسی زبان نہیں بلکہ ترک آذری زبان بولتے ہیں۔ اختلاف امت کا رونا رونے والا خود ہی جھوٹ پر مبنی اختلاف امت بیان کر رہا ہے۔ تو سزا کسے ملے گی۔

پارا چنار کا پٹھان، افغانستان کا ہزارہ، سیستان بلوچستان ایران کا سنی، عراق کا ترک نسل سنی، عرب اور کرد سنی، شیعہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر تکفیریوں کے خلاف اپنے وجود کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی ھل من ناصر ینصرنا کی صدا پر لبیک کہا ہے۔ ایران میں کس صوفی کا قتل ہوا؟ آج بھی شیخ سعدی شیرازی سے لے کرفریدالدین عطار تک سبھی سنی بزرگان کے مزارات بہت اچھی حالت میں ہیں اور ان بزرگان کے بھی پیر و مرشد امام حسن علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت چار اماموں کی قبروں کی حالت زار پوری دنیائے اسلام کے لئے شرم کا باعث ہے۔ ان پر تو مزارات بھی نہیں۔ ایران میں سنی بزرگان کے پرشکوہ مزارات اس لئے کہ وہاں شیعہ اثنا عشری حکومت ہے اور مکہ مدینہ میں بزرگان اسلام کی کچی قبریں، مزارات سے محروم اس لئے کہ وہاں سعودی وہابی تکفیری بادشاہت ہے، جو خود کو سنی کہتی ہے! فرق صاف ظاہر ہے۔

ترکی کی خلافت عثمانیہ کے سوگ میں دبلے ہونے سے بہتر ہے کہ ایک پیراگراف میں یہ بھی لکھ دیتے کہ ترک عثمانی سلطنت کا دھڑن تختہ کرنے میں سنی وہابی قبائل کے سرخیل آل سعود خود ہی تھے اور ہاشمی خاندان جو آج اردن پر حکمرانی کر رہا ہے، ان کو مکہ مدینہ کی عثمانی گورنری سے محروم کرنے والے بھی آل سعود ہی تھے۔ شیعہ یا ایرانی زبردستی اس داستان میں گھسیڑ کر جس کو بچانے کی ناکام کوشش کی ہے، وہ آل سعود کے خائن عرب بادشاہ ہیں۔ ڈرامہ نگاری کی بنیاد ہی فکشن ہے، حقیقت سے اس کا کیا واسطہ۔ تو اے ڈرامہ ساز، اس ڈرامے بازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ حلال زادے ہو تو یہ لکھو کہ کہ پوری دنیا سے اموی باقیات کو دہشت گردی کے لئے عراق اور شام میں کیوں جمع کیا گیا ہے، فقط اس لئے کہ جعلی ریاست اسرائیل کے مخالف ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرکے نسل پرست ناجائز صہیونی ریاست کا دفاع کیا جاسکے۔ یہ جنگ حق و باطل کی جنگ ہے اور آج حق ماضی کی طرح مشتبہ نہیں۔

یہ دور امام زادگان عشق کا ہے، جو اس مقدس جنگ کو جیت رہے ہیں۔ یہ مکتب عشق کے پیروکار حرم آل رسول اللہ ﷺ کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ ہندہ جگر خوار کی باقیات، ان کا کلیجہ چبا رہی ہے۔ امام زادگان عشق کے بارے میں بنو امیہ اور سعودی بادشاہت کے ہمنواؤں کو کیا معلوم کہ یہ کون ہیں۔ ان کی فضیلت کے تذکرے آسمانوں پر ہیں اور تمہاری رسائی اس زمین پر موجود حقیقت تک بھی نہیں۔ تمہاری کھوکھلی باتوں کی وجہ سے حرم جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا دفاع نہ کیا جائے، تم یہ چاہتے ہو۔ امام زادگان عشق اس کے برعکس چاہتے ہیں۔ یہ تاریخ کے وہ کردار ہیں، جنہیں معلوم ہے کہ اگر بروقت کربلا میں نہ پہنچا جائے تو امامت امت کی ناہلی کی وجہ سے قربان ہو جاتی ہے اور اب وہ تاریخ میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اسے نہ دہرانے کا عزم کرکے میدان میں اترے ہیں۔ سلام بر نبویون، سلام بر فاطمیون، سلام بر زینبیون۔ تم بھی امام زادگان عشق کے مقام پر پہنچے ہو، تم پر سلام ہو۔
خبر کا کوڈ : 509045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Well done
Iran, Islamic Republic of
بھت خوب
Pakistan
امام زادگان عشق کے لئے ایسی ہی تحریروں کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش