1
0
Thursday 31 Dec 2015 09:36

ایران، سو جنجال میں خوشحال

ایران، سو جنجال میں خوشحال
تحریر: ثاقب اکبر

آج کا ایران کرامات کی سرزمین لگتا ہے۔ معجز آسا ماحول، حیران کن حوصلہ، تازہ دم افکار اور زندگی کے تمام شعبوں میں پیش رفت۔ کن حالات میں؟ اس پر بات کرنے سے پہلے امام خمینیؒ کی ایک بات یاد آئی، وہ سن لیں۔ 1979ء کے اوائل میں انقلاب آیا۔ آغاز ہی میں سازشوں کے جال بچھ گئے۔ عالمی استعمار کو اس انقلاب نے پچھاڑا تھا، وہ کہاں چین سے بیٹھتا تھا۔ داخل اور خارج میں طرح طرح کی شیطانی تدابیر اور مشکلات کے طوفان، کردستان میں علیحدگی کی تحریک کھڑی کر دی گئی۔ ہر طرح کی اقتصادی اور فوجی پابندیاں مسلط کر دی گئیں۔ مجاہدین خلق جسے ایرانی منافقیں خلق کہتے ہیں، کی دہشت گردانہ کارروائیاں اور پراپیگنڈا کے طومار، لیکن اس پر بھی استعماری قوتوں کو تسلی نہ ہوئی۔ یہ قوتیں جلد باز اور کم حوصلہ ہیں۔ 1980ء میں انھیں قوتوں کے ایما پر کیل کانٹے سے لیس صدامی افواج نے ایران پر حملہ کر دیا۔ جہاں شاہ کی بنائی ہوئی فوج کے حوصلے کمزور پڑ چکے تھے اور وہ نو سازی کے عمل سے گزر رہی تھی۔ اس کے کئی قاتل اور وحشی جرنیل سزا بھگت چکے تھے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ابھی تشکیل و تخلیق کے مرحلے میں تھی۔ ادھر باہر سے جنگ مسلط ہوئی اور ادھر پارلیمینٹ کے بہتر اراکین کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد منتخب صدر اور وزیراعظم کو قتل کر دیا گیا۔

ایسے میں امام خمینیؒ نے امریکا کو للکارتے ہوئے فرمایا: ’’تم ہمارے ارد گرد فولاد کی دیوار کھڑی کرلو ہم زندہ رہ کر بتائیں گے کہ ہمارا خدا ہے۔‘‘ یہ جذبے، یہ ایمان اور یہ ولولے آج بھی زندہ ہیں۔ کوئی قوم اتنا طویل، اتنا ہمہ گیر اور اتنا شدید امتحان دے کر اور امتحان دیتے ہوئے آگے بڑھ کر دکھادے، خارجی اور داخلی محاذوں پر پیش رفت کرتی ہوئی نظر آئے، ظلم و ستم کے مقابلے میں شوق شہادت اور جرأت و استقلال کے مظاہرے کرتی دکھائی دے اور ملک کے اندر ترقی و ارتقا کے حیرت انگیز منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کر رہی ہو تو اس ساری صورت حال کو اعجاز آفریں نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔ ایران اقتصادی پابندیوں کی ایسی ایسی شکلیں اختیار کی گئی ہیں کہ ماضی میں جن کی مثال نہیں ملتی۔ کتنے ہی ملک ہیں جو امریکا کی ناراضگی کے خوف سے ایران کے ساتھ تجارت اور مشترکہ اقتصادی منصوبوں سے گریزاں ہیں۔ بینکوں پر پابندیاں برقرار ہیں کہ وہ ایرانی بینکوں سے لین دین نہیں کرسکتے۔ ایران کی حمایت کرنے والوں کو بھی طرح طرح وحشت آفریں دھمکیاں ہیں۔ دوسری طرف ایران کے مخالفین نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ ان کا سرمایہ و ثروت اس قابل ہے کہ حکومتوں اور حکمرانوں کو خرید لے۔ ان کے ذرائع ابلاغ کی اتنی طاقت ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا لے۔ ان کی فوجی طاقت کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے تمام قوانین کو پامال کرتے ہوئے اور عالمی اداروں کا منہ چڑھاتے ہوئے کسی بھی ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں، جس کے ایران کے ساتھ کچھ اچھے مراسم ہوں۔ ایران کی حمایت ایسا جرم ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والی جماعتیں محفوظ ہیں اور نہ شخصیات۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں ایران کو تزویراتی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس کے عسکری اداروں کو کئی مشکل محاذ درپیش ہیں۔ ایسے میں ایران اپنی خارجہ پالیسی پر قائم ہی نہیں بلکہ پیش رفت بھی کر رہا ہے۔ اسرائیل کے خلاف اس کے اقدامات جاری ہیں۔ دو برس قبل تہران میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں سابق ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنی چند یادداشتیں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو امریکا نے پیغام دیا کہ اگر آپ اسرائیل کی مخالفت ترک کر دیں تو ہم آپ کے خلاف عائد تمام پابندیاں اٹھا لیں گے اور ایران کے ضبط شدہ اثاثے واگزار کر دیں گے۔ ڈاکٹر ولایتی نے کہا کہ ہمیں علم ہے کہ فلسطین کی حمایت کی ہم کیا قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں گذشتہ برس ایران کے روحانی رہبر نے اعلان کیا کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف جو راکٹ استعمال کئے ہیں، وہ ایران نے فراہم کئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر الفتح یا کوئی اور فلسطینی تنظیم اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے چاہے تو ہم اسلحہ فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم صہیونی حکومت کے خلاف ہر اقدام کی حمایت کریں گے اور ہم فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ کون نہیں جانتا کہ ایسے اقدامات اور بیانات کس کس کا اور کس قدر غصہ ابھارنے کے لئے کافی ہیں۔

بحرین میں عوام پر ہونے والا تشدد، یمن پر سعودی بمباری، شام میں فتنہ پروری، حزب اللہ پر پابندیاں اور اس کے راہنماؤں کا قتل، بیروت میں دھماکے، نائیجریا میں اسلامی تحریک کے راہنماؤں اور کارکنوں کا قتل عام، عراق میں داعش کی پرورش اور ایسے دیگر کئی اقدامات کا اصلی ہدف کون ہے، یہ سوال کچھ ایسا مشکل نہیں۔ چونتیس ممالک کا نیا فوجی اتحاد کس کے خلاف ہے، یہ کوئی بھجارت اور پہیلی نہیں لیکن ایران کے عزم کا کیا عالم ہے، اس کے لئے انتیس دسمبر 2015ء صبح ایران کے روحانی پیشوا کا خطاب پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب میں وہ ایسے پرامید دکھائی دیئے کہ ان کی پرامیدی کو کرامت کہے بغیر چارہ نہیں۔ وہ دنیا میں نئے ورلڈ آرڈر کا مژدہ سنا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ اب مستقبل ہمارا ہے، دنیا میں نئی اسلامی تہذیب ظہور پذیر ہو کر رہے گی۔ وہ امید آفریں آیات قرآنی سنا رہے تھے۔ ایمان اور اطمینان ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ وہ دنیا بھر سے آنے والے نمائندہ مسلمان راہنماؤں کو ایک نئے حوصلے سے سرشار کر رہے تھے۔ ان کے انداز اور لہجے میں کہیں اس امر کی جھلک نہ تھی کہ ایران آج بھی سو جنجالوں میں گھرا ہوا ہے، اس لئے کہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہے۔ وہ قرآن و حدیث میں بیان کی گئی پیش گوئیوں پر پوری گہرائی کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہ ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ ان کا ایک ہاتھ دہشتگردی کے واقع میں ضائع ہوچکا ہے۔

وہ مصیبت زدہ قوموں کو حوصلہ دیتے ہوئے علمائے اسلام اور حقیقی روشن فکر افراد کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے سیاستدانوں سے اب کوئی امید نہیں، میری امید علماء اور حقیقی روشن فکر افراد سے ہے، انھیں کے ذریعے موجودہ حالات تبدیل ہوں گے اور انہی کی قیادت میں تبدیلی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ بیدارئ اسلامی کی تحریک کو نہیں دبایا جاسکے گا۔ انھیں کوئی شک نہ تھا کہ یہ تحریک اپنے ہدف تک پہنچ کر دم لے گی۔ جب ان کا خطاب سن کر ہم باہر نکلے تو دل اس امید سے سرشار تھا کہ ظلمت کی رات چھٹ جائے گی۔ منافق رسوا ہوں گے۔ امریکی اسلام نابود ہو جائے گا۔ مظلوم قومیں آزادی اور نجات کی روشن صبح کا نظارہ کریں گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قائم کیا گیا ورلڈ آرڈر زمین بوس ہو جائے گا۔ دہشت گرد تکفیری اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے۔ صہیونیت کے ستمگر پنجے ٹوٹ جائیں گے۔ قبلہ اول میں نماز وحدت ادا کی جائے گی۔ حرمین شریفین سے امن و سلامتی کا سندیسہ عالم بشریت تک پہنچے گا۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوگا۔ اللہ کا نور تمام ہوگا۔ ستم رسیدہ مستضعفین کے ہاتھ نظام عالم ہوگا اور زمین اللہ کی عبادت کے لئے آزاد اور ہموار ہو جائے گی۔ دنیا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے، عدل و انصاف بھر جائے گی۔ یہ وعدہ الٰہی ہے، یہ اللہ کے سچے رسولؐ کا وعدہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 509304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
لطف آگیا ثاقب بھائی۔ راشد
ہماری پیشکش