0
Sunday 28 Feb 2016 21:52

اسکردو روڈ کے ٹینڈر کی منسوخی حکومت کیجانب سے تاخیری حربہ، تکنیکی رکاوٹ یا سیاسی چال؟

اسکردو روڈ کے ٹینڈر کی منسوخی حکومت کیجانب سے تاخیری حربہ، تکنیکی رکاوٹ یا سیاسی چال؟
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر میں تاخیر اور ٹینڈر کی منسوخی کے خلاف گلگت بلتستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی مانند جی بی قانون ساز اسمبلی میں بھی آواز اٹھنے لگی۔ گذشتہ دنوں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اجلاس کے دوران اپوزیشن نے اجلاس سے واک آوٹ کرکے احتجاج کیا۔ جس کے بعد اسپیکر حاجی فدا محمد ناشاد کی ہدایت پر ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان اور رکن اسمبلی غلام حسین ایڈووکیٹ اپوزیشن ارکان کو منا کر واپس ایوان میں لے آئے۔ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس جب شروع ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عمران ندیم نے پوائنٹ آف آرڈر پر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر کہا کہ گلگت اسکردو روڈ منصوبے کے ٹینڈر کی منسوخی عوام کے ساتھ ناانصافی ہے اور اب اس منصوبے پر اگلے پانچ سال میں بھی کام شروع نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کئی دفعہ اعلان کیا بلکہ اس منصوبے کا افتتاح کرکے سنگ بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت اسکردو روڈ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے وقت یقناً وزیراعظم کو یہ معلوم تھا کہ اس منصوبے کی لاگت کیا ہے اور اس منصوبے کا پی سی ون بنا ہے یا نہیں، لیکن وفاقی حکومت نے اس منصوبے کا ٹینڈر منسوخ کرکے گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ اس ناانصافی کے خلاف میں اجلاس سے واک آوٹ کرتا ہوں۔

پیپلز پارٹی کے اکلوتے رکن اسمبلی کی منطقی اور پرمغز گفتگو کے بعد اسمبلی میں اس موضوع پر ہر طرف سے آواز اٹھنے لگی۔ انہوں نے اپوزیشن کے دیگر ارکان سے بھی اپیل کی کہ وہ ان کے ساتھ اجلاس سے واک آوٹ کریں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے رکن حاجی رضوان یہ کہتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کرگئے کہ آپ کی بات سو فی صد درست ہے اور ہم بالکل آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن بنچوں پر موجود اسلامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین، جمعت علمائے اسلام کے اراکین کے ساتھ ساتھ قوم پرست رہنماء نواز خان ناجی بھی اسمبلی سے واک آوٹ کرکے اسمبلی ہال سے باہر چلے گئے۔ اسکردو گلگت روڈ کے منصوبے ارکان کا یہ پہلی مرتبہ متفقہ اور مشترکہ واک آوٹ تھا اور سب نے یک زبان ہوکر مسئلے پر احتجاج کیا۔ دوسری جانب اس منصوبے سے متعلق حکومتی موقف پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعلٰی حافظ حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ گلگت اسکردو روڈ علاقے کے عوام کا منصوبہ ہے، اس منصوبے کی تاخیر پر جس طرح اپوزیشن کو تشویش ہے، اسی طرح ہمیں بھی تشویش ہے۔ وزیراعظم نے احکامات کی روشنی میں ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ پندرہ مارچ تک گلگت اسکردو روڈ کا پی سی ون منظور ہوگا۔

ایک طرف صوبائی حکومت کے سربراہ نے سڑک کے بننے کا عندیہ دیا تو دوسری طرف انہوں نے سابقہ صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو منع کیا کہ وہ اس کو ایشو بنا کر سیاست نہ کریں۔ انہوں نے اسمبلی سے مخاطب ہوکر کہا کہ اس وقت گلگت اسکردو روڈ علاقے کا اہم ایشو بن چکا ہے۔ سابق دور حکومت میں گلگت اسکردو روڈ کوئی ایشو نہیں تھا، اس سے پہلے یہاں پر جس پارٹی کی حکومت تھی، اس دور میں ایک دفعہ بھی کسی نے گلگت اسکردو روڈ پر ایوان سے واک آوٹ نہیں کیا۔ اس وقت علاقے میں کرپشن کا ایشو تھا، نوکریاں فروخت ہو رہی تھیں، علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کا ایشو تھا، اس وقت گلگت میں شہری بے گناہ مارے جاتے تھے۔ اب یہ سارے مسائل ختم ہوگئے اور اب ہمارے دور میں گلگت اسکردو روڈ ایشو ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ ایشو ہے۔ آج اپوزشین بھی علاقے کے مسائل کو ایشو بنا رہی ہے۔ وزیراعلٰی کا مزید کہنا تھا کہ گلگت اسکردو روڈ دو تین کروڑ روپے کا منصوبہ نہیں ہے، یہ چوالیس ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ اس سڑک کے ایک کلومیٹر پر اٹھائیس کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ وفاقی حکومت کو اس منصوبے کے ٹینڈر پر کچھ خدشات تھے کہ 16 ارب روپے کا منصوبہ چوالیس ارب روپے تک کیسے پہنچا۔

وفاقی حکومت کے کچھ لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ سابق حکومت کا اس منصوبے میں پچاس لاکھ ڈالر کا کمیشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس کمپنی کو اسکردو گلگت روڈ کا ٹھیکہ دیا تھا، اس کمپنی نے 2010ء میں 80 ارب روپے میں نیلم جہلم کا ٹھیکہ لیا تھا، اب اس منصوبے کی لاگت تین سو ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، مگر یہ منصوبہ پھر بھی نامکمل ہے۔ اب یہ کہانیاں ختم ہیں، وزیراعظم نے واضح احکامات دیئے ہیں کہ دس روز کے اندر اس منصوبے کا پی سی ون منظور کر لیا جائے۔ حالیہ انتخابات میں اسکردو اور گانچھے سے مسلم لیگ نون کو واضح برتری ملی ہے، لہٰذا انہیں اس منصوبے پر دلچسپی ہونی چاہیے۔ گلگت اسکردو روڈ کے منصوبے پر گلگت بلتستان تمام اضلاع کے لوگ مشترکہ طور پر آواز بلند کر رہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں کہ اس منصوبے پر جلد کام شروع کیا جائے، کیونکہ یہ بلتستان کے لوگوں کا جائز مطالبہ ہے۔

بلتستان ریجن کے چار اضلاع کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، دفاعی ضرورت کے حوالے سے بھی مشکلات ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بھی اس سڑک کی خستہ حالی کے باعث مسائل سے دوچار ہے۔ لہٰذا جلد کام شروع کرائیں، وگرنہ یہ مسئلہ عوامی تحریک کی صورت اختیار کر جائے گا۔ گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر اس وقت وفاقی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے، جسے نہ اگل سکے گی اور نہ نگل سکے گی۔ دوسری طرف گلگت اسکردو روڈ کے ٹینڈر کی منسوخی کہ وجہ ہے یہ رائے عامہ بن چکی ہے کہ ٹینڈر کی منسوخی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی تکینکی رکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ تاخیری حربہ ہے۔ بلتستان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت اسکردو روڈ کی تعمیر نہیں چاہتی۔ اگر حکومت تعمیر کے لئے سنجیدہ ہو بھی تو اس بڑے منصوبے کو بلدیاتی انتخابات کے ووٹ بنک کے طور پر استعال کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں جی بی میں حکمران جماعت کو بدترین شکست ملنے کا امکان ہے، لہٰذا اس الزام میں بھی جان نظر آتی ہے کہ صوبائی حکومت اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے اگر اسکردو روڈ تعمیر کرے بھی تو اس کا آغاز بلدیاتی انتخابات سے قبل شروع کرے گی، تاکہ اثرات انتخابات پر مرتب ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 524261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش