0
Sunday 6 Mar 2016 23:36

مسئلہ شام کے بارے میں چین کا موقف

مسئلہ شام کے بارے میں چین کا موقف
تحریر: تیان چین

اگرچہ چین شام کے مسئلے میں کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے لیکن اب تک چین نے دوسری عالمی طاقتوں کے مقابلے میں شام میں کم کردار ادا کیا ہے۔ شام کے مسئلے کو حل کرنے میں چین کی کوششوں کو تین حصوں یعنی سیاسی، امداد رسانی اور سکیورٹی میدانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1)۔ سیاسی میدان:
اس میدان میں انجام پانے والی کوششیں شام کے مسئلے کا سیاسی راہ حل تلاش کرنے سے مربوط ہیں۔ اس سلسلے میں چین کے وزیر خارجہ اور ان کے مشیر اعلٰی پانگ، کئی بار دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان سے اپنی ملاقات میں شام کے مسئلے کا مجوزہ سیاسی راہ حل پیش کرچکے ہیں۔ مثال کے طور پر فروری 2015ء میں شام سے متعلق مذاکرات کے چوتھے دور میں چینی وزیر خارجہ نے چار بنیادی نکات پر تاکید کی۔ یہ نکات مندرجہ ذیل تھے:
الف)۔ مسئلہ شام کا سیاسی راہ حل تلاش کرنے کی کوشش اور اقوام متحدہ کی قراداد نمبر 2254 کی مکمل پابندی
ب)۔ شام میں موجود تمام گروہوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز
ج)۔ مشرق وسطٰی کی علاقائی طاقتوں کی جانب سے مثبت کردار کی ادائیگی
د)۔ شام کے مسئلے کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے مناسب فضا اور مقدمات فراہم کرنا۔
چینی حکام نے مذکورہ بالا بنیادی نکات کی روشنی میں شام حکومت اور شام کے حکومت مخالف گروہوں سے چین میں مشترکہ میٹنگز منعقد کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین کے سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاران کی نظر میں یہ امر یعنی شام حکومت اور شام کے حکومت مخالف گروہوں سے ایک ہی وقت رابطہ قائم کرنا چین کیلئے ایک خاص ایڈوانٹیج شمار ہوتا ہے، جس سے مسئلہ شام سے مربوط دوسرے کھلاڑی محروم نظر آتے ہیں۔ اسی طرح چین اب تک مغربی طاقتوں کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایسی چار قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے جن میں شام کے خلاف بیرونی فوجی مداخلت کا آپشن موجود تھا۔

2)۔ انسانی بنیادوں پر امداد:
شام سے متعلق چین کی پالیسی کا دوسرا حصہ جنگ کا شکار اس ملک میں انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے پر مشتمل ہے۔ چین کے وزیر خارجہ کے بقول شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز سے لے کر اب تک چین نے 110 میلین ڈالر سے زیادہ امداد فراہم کی ہے، جس کا کچھ حصہ نقدی کی صورت میں جبکہ کچھ حصہ کھانے پینے کی اشیاء کی صورت میں فراہم کیا گیا ہے۔ یہ امدادی سامان اقوام متحدہ کے ذریعے یا براہ راست خود چین کی جانب سے شام کو دیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ شام سے متعلق چین کی پالیسیاں زیادہ فعال نہیں رہیں یا دوسرے الفاظ میں چین نے شام کے بارے میں بہت آہستہ قدم اٹھائے ہیں۔ البتہ چین کے عوام کے ذہن میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ چین نے شام سے متعلق مغربی طاقتوں کی قراردادوں کو ویٹو کرکے شام کے مسئلے میں بھرپور قدم اٹھایا ہے۔ ان کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چینی حکومت ایک ایسے ملک کے بارے میں یہ پالیسی اپنا رہی ہے، جہاں اس کے زیادہ مفادات پوشیدہ نہیں؟ اس سوال کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شام میں چین کے خاص اقتصادی مفادات نہیں ہیں۔ شام میں بحران کے آغاز سے قبل چین اور شام کے درمیان ہونے والی تجارت تقریبا 2.48 ارب ڈالر تھی جو 2014ء میں کم ہو کر صرف 1 ارب ڈالر رہ گئی۔

مزید برآں، شام میں چین کی تیل اور گیس کی کمپنیوں کی سرگرمیاں بھی موجودہ بحران کے باعث معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ چین کے اقتصادی تعلقات کے پیش نظر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چین شام میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ اگرچہ شام میں چین زیادہ اقتصادی مفادات نہیں رکھتا، لیکن ایک حد تک سیاسی مفادات اور ترجیحات کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر چین کی سیاسی ترجیحات میں سے ایک شام میں مغربی طاقتوں کی فوجی مداخلت اور تسلط کو روکنا ہے۔ اسی طرح شام کے اندرونی مسائل میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کو روکنا اور شام کی موجودہ حکومت کو غیر قانونی قرار دینے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا بھی چین کی پالیسی میں شامل ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران چین نے مشرق وسطٰی خطے کے ممالک جیسے مصر، سوڈان، اردن، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، الجزائر، ایران اور ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون قائم کرنے اور اسے وسعت دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جبکہ چین نے شام کے ساتھ ایسا تعاون قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ چینی حکام کی نظر میں شام حکومت اور شام کا سیاسی نظام غیر قانونی نہیں اور شام کا موجودہ سیاسی نظام اس ملک میں موجود حالات کے پیش نظر مغربی جمہوریت سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

3)۔ سکیورٹی امور:
شام سے متعلق چین کی پالیسیوں کا تیسرا حصہ سکیورٹی امور سے مربوط ہے۔ چین شام میں موجود بحران اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پھیلاو کو پریشانی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ شام میں چین کی اہم پریشانیوں میں سے ایک شام سے چین کے صوبے سین کیانگ میں دہشت گردی کا پھیلاو ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ دہشت گرد ہمیشہ مشرق وسطٰی، وسطی ایشیا اور چین کی مغربی سرحدوں کے درمیان نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور یہ امر چین کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ اگرچہ چینی حکام دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پھیلاو کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کرتے ہیں، لیکن وہ اس مسئلے کا حل سیاسی طریقہ کار سے نکالنے کے حامی ہیں اور فوجی طریقہ کار کو درست قرار نہیں دیتے۔ چینی حکام فوجی طریقہ کار کو اپنے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں، جو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر استوار ہیں۔ چین خطے کے ممالک سے انٹیلی جنس انفارمیشن کے مبادلے کو ترجیح دیتا ہے، تاکہ اس طرح سین کیانگ سے افراد کے دہشت گرد گروہوں سے ملحق ہو جانے کو روکا جا سکے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ چین شام میں انتہائی کم سیاسی اور اقتصادی مفادات کے پیش نظر وہاں زیادہ توانائیاں صرف نہیں کرنا چاہتا، لیکن شام کے مسئلے میں الجھے دوسرے ممالک کو سکیورٹی اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرکے ان کی مدد کرنے کا خواہاں ہے۔ چین کی نظر میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوائی یا زمینی فوجی کارروائی کے ذریعے ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 525147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش