0
Sunday 31 Jul 2016 21:21

مقبوضہ کشمیر، وادی غم و اندوہ

مقبوضہ کشمیر، وادی غم و اندوہ
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی

دنیائے رنگ و بو میں قدم رکھنے سے قبل ہی مجھ پر یتیمی کا سایہ پڑ گیا، ظالموں و جابروں نے مجھ سے تمام خوشیاں چھین لیں، 1990ء کی دہائی میں جب میں اپنی والدہ کے پیٹ میں تھا میرے والد محترم اشرف بٹ کو جو پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور تھے، بھارتی فوج نے ایک فائرنگ کے دوران ہلاک کر دیا، 1996ء میں والدہ نے باقی ماندہ زندگی گزارنے اور ہماری پرورش و پرداخت کی خاطر چچا منظور احمد سے دوسری شادی کی، ابھی اس زندگی کا صحیح سے آغاز بھی نہیں ہوا تھا، زندگی سنورنے کا سلسلہ شروع ہونا باقی تھا، میری تعلیم و تربیت کا ابھی کوئی درست انتظام نہیں ہوسکا تھا کہ بٹہ مالو (سرینگر) علاقہ میں میرے دوسرے والد کو ایک دلخراش واقعہ میں ہندوستانی فوج نے موت کی نیند سلا کر والدہ کا سہاگ ایک مرتبہ پھر اجاڑ دیا، انہیں دوسری مرتبہ بیوہ اور مجھے یتیم کر دیا، میرے ماموں، ان کی اہلیہ اور اولاد سمیت دیگر کئی رشتہ داروں کو بھی بندوق کی گولیوں سے مختلف مواقع پر فوج نے بھون دیا، دنیا میں قدم رکھنے سے قبل میری نانی کے ساتھ ظلم و ستم کا ننگا ناچ رچایا گیا اور ان کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔

جب مجھے شعور آیا تو صرف میں تھا اور میری بے بس والدہ، میرا پورا گھر اجڑ چکا تھا، میرا خاندان تباہ و برباد ہوگیا تھا، کوئی میری رہنمائی کرنے والا نہیں تھا، زمین کے تمام سہارے ہندوستانی فوج نے مجھ سے چھین لئے تھے، پروردگارِ عالم کے علاوہ کوئی میرا نہیں رہ گیا تھا۔ اس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں میں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا، خود کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا پال لیا، لیکن غریبی، محتاجی اور باپ کی کمی میری راہ میں حائل ہوگئی، ہزاروں خواہشوں کے باوجود میں پڑھ نہیں سکا، اسکول جانے کا سلسلہ میں برقرار نہیں رکھ پایا اور یوں مجبور ہوکر ہم نے مزدوری شروع کر دی، کچھ کام کاج کرکے دو وقت کی روزی کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگیا، اپنی اور ماں کی ضروریات کی تکمیل کیلئے شیشے کا کام کرنے لگا، مکانوں اور دکانوں میں شیشہ لگایا کرتا تھا، لیکن ہندوستانی فوج نے مجھے بھی نہیں بخشا، میری والدہ سے اسکا آخری سہارا بھی چھین لیا۔

13 جولائی 2016ء کی شام تقریباً 4 بجے فوجی اہلکار میرے گھر آئے اور گرفتار کرکے شالہ ٹینگ چوک (سرینگر) لے گئے، وہاں اس وقت بہت کم لوگ تھے لیکن کشیدگی تھی، کچھ فاصلے پر پولیس اہلکار کھڑے تھے، انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اندھا دھند طریقے سے مجھے پر ٹوٹ پڑے، فائرنگ کرکے میرے جسم کو چھلنی چھلنی کر دیا، میری ٹانگ پر بھی گولی چلائی، دو دن بعد جب مجھے ہوش آیا تو خود کو میں نے نیم مردہ حالت میں ایک ہسپتال میں پایا، جہاں میری والدہ نمناک آنکھوں کے ساتھ میرا سر دبا رہی تھی، ان کی آنکھوں میں رواں آنسو دیکھ کر میرے صبر و ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا لیکن میں بے بس تھا، کچھ نہیں کرسکتا تھا، اپنی بے کسی اور بے حسی کا رونا رو رہا تھا، اپنے والد، ماموں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کئے گئے ہندوستانی فوج کے مظالم کو یاد کر رہا تھا، ان کی روحوں کو پکار کر یہ کہ رہا تھا کہ میں بھی آپ کی طرح مظلوم ہوں، میں بھی ہندوستانی فوج کے قہر کا شکار ہوگیا ہوں۔

یہ دلخراش اور دلدوز داستان کسی ناول یا افسانہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایک 18 سالہ کشمیری مضروب نوجوان محمد عاقب کی آپ بیتی ہے، جس کا اظہار اس نے گذشتہ ایام ہسپتال میں کیا ہے۔ اس طرح کے بے شمار دلدوز واقعات ہیں جو کشمیریوں کی حقیقی داستان زندگی ہے، بے شمار ایسے خاندان ہیں، جنہیں فوج نے اجاڑ دیا ہے، سینکڑوں خواتین کو بیوہ بنا دیا ہے، بچوں کو یتیم کیا ہے اور ماؤں سے ان کا سہارا چھین لیا ہے۔ 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعد 22 دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل سخت ترین کرفیو نافذ ہے، فوجی نوجوان گھروں میں گھس کر مرد، خواتین اور بچوں پر فائرنگ کر رہے تھے، مہلک ہتھیار پیلٹ گن کا بے تحاشہ استعمال کیا جا رہا ہے، پرامن مظاہرین کے ساتھ ظلم و ستم کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے، ہسپتال جاکر زخمیوں کو مارا جا رہا ہے، اب تک 54 سے زائد عام شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور 450 سے زائد شدید زخمی ہیں، 51 نوجوانوں، خواتین اور بچوں کی پیلٹ گن سے مکمل بینائی چلی گئی ہے۔ غرض کہ اب کوئی بھی شہری بھارتی فورسز کی مظالم و بربریت سے محفوظ نہیں رہا، کشمیر کی تاریخ میں ایسے مظالم کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔ بہرحال یہ امت مسلمہ کا مشترکہ دکھ درد ہے جسے محسوس کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 556847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش