0
Tuesday 6 Dec 2016 19:13

شکاریوں کی آمد، پرندوں کا درد اور شہریوں کا کرب

شکاریوں کی آمد، پرندوں کا درد اور شہریوں کا کرب
رپورٹ: آئی اے خان

قطر کا شاہی خاندان شکار کرنے کیلئے پاکستان میں موجود ہے، شاہی خاندان کی شکاری جبلت سے ریتلے میدانی علاقوں کے مکین شدید کرب و تکلیف میں مبتلا ہیں، مگر شہریوں کی تکالیف کا رتی برابر احساس کئے بنا حکومت عربوں کو شکار کے خصوصی اجازت نامے ماورائے قانون جاری کرتی ہے حالانکہ انہی عرب ممالک میں کسی پاکستانی کو شکار تو درکنار عزت سے روزگار تک میسر نہیں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جن علاقوں کے کھیت کھلیان عرب شکاری اپنے کتوں، اونٹوں فور بائی فور جیپوں سے کچلنے میں مصروف ہیں، وہاں کے مقامی شہریوں نے تلور کے شکار کیخلاف عدالت سے اسٹے آرڈر بھی لے رکھا ہے۔ البتہ اس عدالتی حکم نامے کو روندتے ہوئے یہ شکار جاری ہے۔ جہاں دن کی روشنی میں جانوروں و پرندوں کی اذیت بھری آوازیں گونج رہی ہیں، تو رات اندھیرے میں کربناک کمسن چیخیں صحرا کا سینہ چیرتی ہیں۔ عرب شکاریوں کی آمد اور اس جاری شکار کے خلاف مقامی شہریوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان اس غیر قانونی اقدام کیخلاف ایکشن لے۔ بھکر کے علاقے یارا، سالحہ ماہنی اور کیھوہ کے رہائیشیوں نے اس بارے میں مقامی عدالتوں سے سٹے آرڈر بھی لے رکھا ہے، لیکن انتظامیہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کروانے سے قاصر ہے۔ مظاہرین کے مطابق قطری شہزادوں کے شکار کی وجہ سے فصل تباہ ہو رہی ہے، حکومت کی جانب سے تباہ ہونیوالی فصل کا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا، جبکہ بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے سال میں صرف ایک بار ہی فصل چننے کا موقع ملتا ہے، اگر اسے بھی تباہ کر دیا جائے تو ہماری سال بھر کی روزی ختم ہو جاتی ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں شہریوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطری شہزادوں کی جانب سے ہونے والے نقصان کا ازالہ نہ کیا گیا تو مرکزی شاہراہیں بند کریں گے۔

بھکر اور اس کے نواح میں جاری اس شکار کے اجازت نامے گذشتہ ماہ قطری شہزادوں کو جاری کئے گئے تھے۔ یہ وہی قطرے شہزادے ہیں، جن میں سے ایک کا تذکرہ حال ہی میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران بھی ہوا۔ جب حکومت کی جانب سے ان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اپنے خط میں قطری شہزادے نے اپنے والد کے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کیساتھ کاروباری مراسم اور ان لندن فلیٹس کے حوالے سے تفصیلات بتائی تھیں، جو پانامہ کیس کی سماعت کا بنیادی نقطہ ہے۔ گرچہ ’’تلور‘‘ عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل پرندہ ہے، جس کی نسل کو خاتمے کا اندیشہ ہے، مگر اس کے باجود یہ اجازت نامے جاری ہوئے۔ شاہی شکاریوں کیلئے جو علاقے مختص کئے گئے۔ ان میں پنجاب کے اضلاع بھکر اور جھنگ شامل ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جب عرب شکاریوں کو ماورائے قانون شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کئے گئے ہوں۔ قطری سفارتخانے کو اجازت نامے سے متعلق جو خط (ڈی سی پی، پی اینڈ آئی) –17 /19/6/2016 ایلوکیشن میں کہا گیا کہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے اعزاز محسوس کر رہی ہے کہ حکومت پاکستان نے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ شہزادہ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کو ہوبارا بسٹرڈ کے شکار کے سیزن 17-2016ء کے لئے بھکر اور جھنگ کے اضلاع مختص کر دیئے گئے ہیں۔

عرب شہزادوں کے شکار کی منظر کشی وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سلمان نامی نوجوان نے سوشل میڈیا پر الفاظ میں کی کہ ’’ایک دن ایک C5 گلیکسی طیارہ اونٹ، خادموں، شکروں، گاڑیوں اور دستی ہتھیاروں سے بھرا ہوا رحیم یارخان ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے، تو شاہی محل سے لے کر ائیر پورٹ تک کا سارا علاقہ وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے سختی سے ممنوع کر دیا جاتا ہے۔  سامان آرائش اور دیگر سامان ضرورت جب ترتیب پا جاتا ہے تو Gulf Stream پرائیویٹ بزنس جیٹ طیاروں کا ایک غول آتا ہے، جن میں سے شاہی شہزادے نمودار ہو کر مہنگی ترین گاڑیوں میں بیٹھ کر ہتھیاروں سے لیس محافظوں کے ساتھ صحرا میں تیار کئے گئے اپنے عارضی محل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک سے ڈیڑھ ہفتہ کے اس دورانیہ میں ان کا بنیادی مشغلہ تلور کا شکار ہوتا ہے۔ یہ کھیل عام طور پر بعد از دوپہر شروع ہوتا ہے۔ اس میں شکرے، کتے، اونٹ، گھوڑے اور 4x4 گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ اذان مغرب کے قریب شکار ختم ہو جاتا ہے۔ پھر مغرب کی باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد تلور کی پکوائی شروع ہوتی ہے، جس میں روسٹ، بار بی کیو، ہانڈی اور دیگر انداز شامل ہیں۔ ضیافت میں خشک میوہ جات سے بنا سبز ہریرہ، ٹھنڈا چھاچھ، تازہ پھل اور دیگر مشروبات دیئے جاتے ہیں۔ انواع و اقسام کا میٹھا دیا جاتا ہے اور پھر عشاء کی نماز باجماعت ادا ہوتی ہے۔ آخر میں مشائخ اپنے اپنے حجروں میں چلے جاتے ہیں۔

حجروں میں کم سن غیر تجربہ کار دوشیزائیں موجود ہوتی ہیں، جن کو تجربہ کار خادماؤں نے پہلے سے اچھی طرح تیار کرکے ان کو علاقائی انداز میں ملبوس کرکے سونے کے زیورات سے مزین کیا ہوتا ہے۔ ساتھ سختی سے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ شیخ کو ناراض بالکل نہیں کرنا، ورنہ وہ تمہارے ماں باپ کو مروا دے گا۔ بیچاری نو عمر بچیاں کم علمی کی بنا پر کچھ بھی پیشن گوئی کرنے سے قاصر جب کسی اچھے خاصے مسٹنڈے شہزادہ کے سامنے پیش ہوتی ہے تو مجھے نہیں معلوم اس بچی کے کیا جذبات ہوتے ہوں گے، لیکن سکیورٹی پر مامور ایک شخص کے مطابق حجروں سے جو چیخیںے اور چلانے کی آوازیں آتی تھیں، وہ کسی عقوبت خانہ سے کم نہیں ہوتیں۔ اسکو اگر ایک خونخوار باز کا کسی چھوٹی سی فاختہ پر جھپٹنا کہئے تو غلط نہیں ہوگا۔ کئی بار یہ بچیاں بیہوش ہوتی ہیں، لیکن مشائخ اتنے بھی بے رحم یا سنگدل نہیں، حاضر سروس ڈاکٹروں اور نرسوں کی ایک ٹیم ہمہ وقت وہاں موجود ہوتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ایمبولینس ان کو شہر میں واقع شیخ زید بن سلطان ہسپتال بھی لے جاتی ہے۔ شائد اسی غرض سے یہ ہسپتال وہاں بنوایا گیا، ورنہ بلوچستان اور سرحد میں بھی غربت ہے۔ الله کا شکر ہے مشائخ کا دھیان وہاں نہیں پڑا۔ ہسپتال میں یہ مضروب بچیاں فوت بھی ہوجاتی ہیں۔

ان معصوم لڑکیوں کے والدین غربت کی سطح سے نیچے رہتے ہیں، اس لئے ہمت کرنے کا سوچ بھی سکتے کہ کوئی مقدمہ کریں۔ ایک صحافی نے جب سکیورٹی اہلکار سے دریافت کیا کہ تم کسی بین الاقوامی NGO کو کیوں نہیں بتاتے؟ تو بولا "صاحب میں مسنگ پرسن نہیں بننا چاہتا۔" تلور کے شکار پر جو پابندی عائد تھی، اس کو اٹھا لیا گیا اور کوئی انسانی، حیوانی حقوق کا کوئی ادارہ نہیں بولا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ اس جرم عظیم پر خاموش رہتے ہیں، شائد وہ بولنے کی سزا سے واقف ہیں۔ میرے نزدیک تلور کے شکار کی اجازت درحقیقت کم سن لڑکیوں کی معصومیت کے شکار کا پروانہ تھا۔‘‘ اب اگرچہ سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں میں پنجاب کے صحرائی علاقوں میں جاری اس غیر انسانی و غیر قانونی شکار پر کڑی تنقید جاری ہے، مگر اس کے باوجود یہ تلخ حقیقت مسلمہ ہے کہ یہ شکار اسی ریاست کی سرپرستی میں جاری ہے، جس کے قوانین میں اس شکار کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اہل نظر پرامید ہیں کہ جلد ہی وفاقی حکومت اسمبلی میں اپنی اکثریتی نشستوں کا خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون پاس کرے گی، جس کے تحت نایاب پرندوں اور معصوم بچیوں کے شکار کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 589235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش