0
Saturday 20 May 2017 20:11

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کا بھاری تاوان

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کا بھاری تاوان
تحریر: عبدالباری عطوان

جب رائٹرز نیوز ایجنسی ایک اعلی سطحی امریکی عہدیدار کے بقول لکھتی ہے کہ واشنگٹن عنقریب سعودی عرب کے ساتھ 100 ارب ڈالر سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے والا ہے اور اس معاہدے کی قیمت اگلے دس برس تک 300 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے جس کا مقصد ریاض کی دفاعی طاقت میں اضافہ ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بنیادی شرط خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری قائم رکھنا ہے۔ ہمیں اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے یہ توقع رکھنی چاہئے کہ ہفتے کے دن امریکی صدر اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران اسے حتمی شکل دے دیں گے۔ صحافت کی دنیا میں ایسی خبریں حادثاتی طور پر نشر نہیں کی جاتیں اور جس رپورٹر نے یہ خبر شائع کی ہے اس کی مہارت سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس نے صرف یہ خبر دریافت کی ہے اور یقیناً ایک شخص نے چاہا ہے کہ یہ خبر مناسب وقت پر نشر ہو جائے۔

یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کو اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے انتخاب کیا ہے، اس کی وجہ عالم اسلام میں اس ملک کی سیاسی یا مذہبی حیثیت نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جو امریکی صدر کے دورے کا بھاری تاوان ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ٹرمپ کو درپیش پیسوں کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہم نے رائٹرز پر شائع ہونے والی اسی خبر سے کشف کی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ سعودی عرب کو پیسوں کی ضرورت ہے لیکن کیا اسے حقیقت میں اس کوالٹی اور مقدار میں اسلحہ کی ضرورت ہے جو وہ امریکہ سے حاصل کر رہا ہے، شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب میں انجام پانے والے اسلحہ کی فروش کے اس معاہدے میں صرف ایف 35 جدید جنگی طیاروں تک ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ان طیاروں کی نگہداشت، تعمیر، جنگی کشتیوں کے آپریٹنگ سسٹمز اور پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خبر کو فاش کرنے والے امریکی عہدیدار نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ یہ معاہدہ ہر گز خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔

ہمیں سچ مچ یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس معاہدے میں اسرائیل کا نام کیوں لیا جا رہا ہے؟ اور اس بات پر زور کیوں دیا جا رہا ہے کہ امریکہ خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری کو یقینی بنائے گا؟ کم از کم موجودہ عرصے میں سعودی عرب کی فوجی صلاحیتیں مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ختم کروانے کیلئے مناسب نہیں بلکہ وہ درحقیقت ایران کے خلاف تھونپی جانے والی ممکنہ جنگ کیلئے ہیں۔ ہم نے لفظ "تھونپی جانے والی" استعمال کیا ہے کیونکہ ٹرمپ حکومت "ایران کے خطرے" کو سعودی عرب سے پیسے بٹورنے کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے نائب ولیعہد اور وزیر دفاع، شہزادہ محمد بن سلمان نے جب سے یہ عہدہ سنبھالا ہے میڈیا پر اپنے بیانات کے دوران اسرائیل یا فلسطین کے بارے میں حتی ایک لفظ تک نہیں بولے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور خلیج عرب ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے ان کی حمایت کا معاوضہ ادا کریں۔ امریکی صدر ایک تاجر ہیں اور مذکورہ بالا ممالک کی حمایت بغیر کسی معاوضے کے نہیں ہو سکتی۔ لہذا یہ معاہدہ انجام پایا ہے تاکہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے یہ معاوضہ ادا کیا جا سکے۔ ان میں سے بعض معاہدے فوجی نوعیت کے ہیں جیسے اسلحہ کی فروخت کا معاہدہ جبکہ بعض دیگر سرمایہ کاری پر مبنی معاہدے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب آئندہ چار سالہ مدت کے دوران امریکہ کے تعمیراتی منصوبوں میں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اگلے چار سال یعنی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت اور زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کی صدارت انہیں چار سال تک محدود رہے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا جس کا وعدہ سعودی حکمرانوں نے امریکی حکام کو دے رکھا ہے؟

سعودی عرب ان معاہدوں کا معاوضہ کیسے ادا کرے گا؟ آرامکو آئل کمپنی کے 5 فیصد حصص کی فروخت ان معاہدوں کے معاوضے کا ایک چوتھائی حصہ بھی پورا نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف سعودی عرب کے اس سال بجٹ کا خسارہ 84 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جبکہ سعودی حکومت پر حکومتی اہلکاروں کی تنخواہوں اور بونسز کی ادائیگی کی مد میں 13 ارب ڈالر کا قرضہ بھی چڑھ چکا ہے۔ سعودی عرب میں جاری تعمیراتی منصوبوں کا کیا بنے گا؟ سعودی شہریوں کی فلاح و بہبود کا کیا ہو گا؟ بنیادی اشیاء اور سروسز کی حمایت کیسے ہو گی؟ یہ سوالات بہت مشکل ہیں اور سعودی اقتصادی ماہرین اور تجربہ کار افراد کی جانب سے انہیں اٹھائے جانا حرام ہے۔ لیکن ان سوالات کا جواب آسانی سے دیا جا سکتا ہے۔

ان سوالات کا جواب یہ ہے: یمن اور شام کی جنگوں میں فوجی شعبے میں ہونے والی فضول خرچیوں کے نتیجے میں مالی ذخائر کے ضیاع اور پیسے کی لائن میں لگے لالچی اور حریص سعودی حکمرانوں اور شہزادوں کی بڑی تعداد کے تناظر میں سعودی عرب کے پاس صرف دو راہیں بچی ہیں۔ یا تو ملک کے اندر یا باہر موجود خزانوں سے قرض حاصل کرے یا پھر اپنے پاس موجودہ وسائل کے ذریعے آمدن میں اضافہ کرے اور نجکاری کے ذریعے حکومتی کمپنیز کو بیچ ڈالے۔ آرامکو کمپنی کے 5 فیصد حصص کی فروخت بھی اسی زمرے میں آتی ہے اور عنقریب دیگر بڑی حکومتی کمپنیوں کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔ سعودی عرب اس وقت دو چیزیں کھو چکا ہے۔ ایک اپنا رعب اور دبدبہ یا کم از کم اس کا بڑا حصہ اور دوسرا اپنی مالی توانائیاں۔ یہ ایک بڑا نقصان ہے جو اتنی آسانی سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔
خبر کا کوڈ : 638682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش