0
Tuesday 28 Nov 2017 23:52

آل سعود رژیم کا بڑا جوا

آل سعود رژیم کا بڑا جوا
تحریر: محمد ایوب

680 عیسوی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے پچاس برس بعد تینتیس سالہ یزید ابن معاویہ کی جانب سے تین ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکر عراق کی سرزمین کربلا بھیجا گیا جس کا مقصد نواسہ رسول (ص) حسین ابن علی (ع) کی سربراہی میں 72 افراد پر مشتمل گروہ کا مقابلہ کرنا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے بنی امیہ حکومت کے جواز (مشروعیت) کو چیلنج کر رکھا تھا اور اسے غیر اسلامی قرار دے دیا تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام اپنے تمام ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے جبکہ ان کے ہمراہ خواتین اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ اسلامی تاریخ کی ابتدا میں یہ واقعہ شیعیان علی علیہ السلام، داماد رسول خدا (ص)، امام حسین علیہ السلام کے والد اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ کے سیاسی تشخص کی پختگی کا باعث بنا۔ آئندہ صدیوں میں شیعہ اور سنی کے درمیان فرق مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔

یزید کا موجودہ جانشین سعودی ولیعہد محمد بن سلمان ہے جس کی عمر بھی تینتیس برس ہے۔ وہ بھی یزید کی طرح مشرق وسطی سے شیعہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور حزب اللہ لبنان کو اپنے پہلے ٹارگٹ کے طور پر انتخاب کر چکا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان، جس کی طاقت سعودی عرب کی فوجی طاقت سے موازنہ کے قابل نہیں، کو ختم کر کے کربلا کا واقعہ دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لبنانی وزیراعظم سعد حریری کی جبری گرفتاری اس سلسلے میں اس کا پہلا قدم شمار کیا جا رہا ہے۔ سعودی حکام کی نظر میں سعد حریری کا واحد جرم یہ ہے کہ اس نے سعودی عرب کی مالی امداد کے باوجود لبنان کی قومی حکومت میں حزب اللہ لبنان کو بھی شریک کیا ہے۔

آل سعود رژیم کی نظر میں حزب اللہ لبنان ایران کا متبادل اور سعودی عرب کی حقیقی دشمن ہے۔ سعودی حکام کا اصلی ہدف سعودی عرب کے اثرورسوخ میں اضافہ کرتے ہوئے ایران کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ خلیج فارس میں سعودی برتری کو قبول کر لے۔ آج بھی سترہویں صدی عیسوی کی مانند ایران سعودی عرب کو خلیج فارس کی غالب طاقت اور اسلام میں دینی اقتدار کی واحد طاقت کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ آج بھی ماضی کی طرح سیاسی طاقت اور دینی مشروعیت سعودی عرب اور ایران کے درمیان رقابت کا شکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک بڑا فرق موجود ہے۔ ایران آج خطے کی ایک بڑی طاقت شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے پیسے کے زور پر خطے میں اثرورسوخ حاصل کرنے کی تمام تر کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں۔

شام میں سعودی عرب کو امریکی مدد حاصل ہونے کے باوجود سنی شدت پسند عناصر کو ایران کے حمایت یافتہ بشار اسد کے مقابلے میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی جانب سے قطر کو گوشہ نشین کرنے کی کوششوں کا نہ صرف کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ الٹا قطر ایران سے مزید قریب ہو گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی حکام کی جانب سے یمن پر شدید ہوائی حملے جن کا مقصد شیعہ حوثی قبائل کو اقتدار سے دور کرنا تھا، ناکام ہوئے ہیں اور ان کا نتیجہ صرف عام یمنی شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ شدید مالی اخراجات کرنے کے باوجود سعودی حکومت خطے میں طولانی مدت وفادار اتحادی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

آل سعود رژیم کی جانب سے وہابی طرز تفکر کو مضبوط بنانے اور دنیا بھر میں اسے پھیلانے کے بھی منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ یہ شدت پسند اسلامی عناصر جیسے القاعدہ اور داعش، آج سعودی عرب کے خونی دشمن بن چکے ہیں۔ ممکن ہے سعودی عرب بھاری اخراجات کے ذریعے عارضی طور پر بعض ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے لیکن آل سعود رژیم کی نرم طاقت اس قدر کمزور ہے کہ خطے میں کوئی اسے اہمیت نہیں دیتا۔

دوسری طرف ایران شدید اقتصادی پابندیوں اور خطے میں اس کا اثرورسوخ روکنے کیلئے بڑی طاقتوں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے عراق، شام اور لبنان میں بہت زیادہ اثرورسوخ کا حامل ہو چکا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور ایران میں اتحاد کی وجہ نظریاتی اشتراکات ہیں۔ اس اتحاد کی کامیابی کی مختلف وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ اپنائے جانے والے رویے کے برخلاف ایران حزب اللہ لبنان کے تمام اقدامات کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ حزب اللہ لبنان کا ایک خودمختار کھلاڑی ہے جو مشترکہ مفادات کے ناطے ایران سے تعاون کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر حزب اللہ لبنان اور ایران کے درمیان اعتماد کی سطح ریاض اور خطے میں اس کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات کی نوعیت سے بہت مختلف ہے۔

لہذا خلیج فارس اور مشرق وسطی کے امور میں ایران کی جانب سے سعودی عرب کی اقتدار پسندی کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسی طرح اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ سعودی عرب کے تمام اقدامات کا الٹا نتیجہ نکلنا شروع ہو جائے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے ایران سے مقابلے کیلئے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ محاذ تشکیل دیا ہے جس کے برعکس نتائج ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ سعودی عرب خود کو عرب دنیا اور عالم اسلام کا لیڈر ملک ظاہر کرتا ہے اور اسرائیل سے اس کے قریبی تعلقات اس کردار پر سوال اٹھنے کا باعث بنیں گے۔ ہو سکتا ہے آج بھی کربلا جیسی جنگ دوبارہ انجام پائے لیکن ایسی صورت میں قوی امکان یہ ہے کہ فتح یزید کو نہیں بلکہ حسین (ع) کو حاصل ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 686408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش