0
Sunday 15 Apr 2018 22:48

سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی، خطرناک دہشتگردوں کی رہائی کا قوی امکان، کراچی کا امن داؤ پر لگ گیا

سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی، خطرناک دہشتگردوں کی رہائی کا قوی امکان، کراچی کا امن داؤ پر لگ گیا
ترتیب و تدوین: ایس حیدر

گزشتہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو سٹی کورٹ مال خانے میں لگنے والی آگ سے دہشتگردی، قتل، اقدام قتل، پویس مقابلہ، چوری، ڈکیتی، منشیات سمیت 2500 سے زائد سنگین مقدمات کے اہم ثبوت جل گئے، آگ لگنے سے کیس پراپرٹی خاکستر ہوگئی، تفتیشی افسران شواہد عدالتوں میں پیش نہیں کر سکیں گے، جس کے باعث کالعدم، سیاسی و لسانی تنظیموں، گینگ وار کے دہشتگردوں کو فائدہ ہوگا اور ان کو سزائیں نہیں دی جا سکیں گی، اس طرح تمام گرفتار خطرناک دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی رہائی کا امکان ہے، دوسری جانب آتشزدگی کے واقعے کی محکمہ فائر بریگیڈ نے قلعی کھول دی ہے، فائر بریگیڈ کی ابتدائی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، جس کے مطابق انہیں مال خانے کی آگ بجھانے سے روکا گیا، 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب کو سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی کو کئی روز گزر چکے ہیں، لیکن آگ لگی یا لگائی گئی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، معاملے کو دبانے کیلئے طول دیا جا رہا ہے، کوئی عملی تفتیشی کام نہیں ہو رہا، 11 اپریل کو ہی تمام معاملات ختم ہو چکے تھے، لیکن آگ لگی یا لگائی گئی، اس معاملے سے افسران واقف ہو چکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ مال خانے میں آتشزدگی سے شہر کراچی کا امن داؤ پر لگ گیا ہے، مال خانے میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں ابتدائی طور پر ڈھائی ہزار سے زائد مقدمات میں گرفتار ہونے والے ملزمان سے برآمد ہونے والا سامان جل گیا، ملزمان پر دہشتگردی ایکٹ سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج تھے۔

پولیس نے مال خانے میں راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈ، مختلف اقسام کا جدید اسلحہ، آوان بم، گولیاں، بھاری مقدار میں چرس، شراب، چوروں اور ڈکیتوں سے برآمد ہونے والا سونا، چاندی، نقدی، خون آلود کپڑے، آلہ قتل، فائلوں سمیت دیگر سامان رکھا ہوا تھا، جو آگ لگنے سے خاکستر ہو گیا۔ مال خانے کے انچارج اے ایس آئی شکیل مرزا کے مطابق شہر بھر سے کئی سال کے دوران گرفتار ہونے والے دہشتگردوں سے برآمد ہونے والا دھماکہ خیز موادسمیت اسلحہ اور دیگر سامان مال خانے میں جمع ہوتا ہے اور اس مال خانے میں کئی برسوں پرانا دھماکہ خیز مواد، اسلحہ اور دیگر سامان موجود تھا، مال خانہ سہ پہر چار بجے تک عدالتیں بند ہونے کے بعد مجسٹریٹ کی نگرانی میں مال خانے کے دروازے سیل کر دیئے جاتے ہیں، پہلے دو اہلکار مال خانے پر ڈیوٹی پر موجود ہوتے تھے، تاہم اس واقعہ کے بعد انہیں علم نہیں ہے کہ وہاں اہلکار موجود تھے یا نہیں، منگل کی دوپہر ہم لوگ مال خانہ بند کرکے چلے گئے تھے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب مال خانے میں آگ لگنے کی وجہ سے مال خانے میں رکھا تمام سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ قبل ڈی ایس پی سعید رند نے مال خانے کی انسپیکشن بھی کی تھی، اس دوران 100 سے زائد راکٹ، بال بم، آوان گولے، دستی بم، ڈھائی سے 3 من بارودی مواد، خودکش جیکٹس اور دیگر دہشتگردوں سے برآمد ہونے والی اشیا موجود تھی، جس پر ڈی ایس پی سعید رنگ نے کہا تھا کہ اس خطرناک سامان کو ہٹانے کیلئے اعلیٰ افسران کو خط لکھ رہا ہوں۔ بعد ازاں اس معاملے کو روک دیا گیا۔

متعدد بار معمولی آگ لگنے یا چوری کے واقعات کے حوالے سے سی پی او کراچی اور ڈی آئی جی ساؤتھ کے دفاتر میں درخواستیں بھیجی جاتی رہیں، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ مال خانے سے سامان نہیں ہٹایا گیا۔ ڈی آئی جی ساتھ کا کہنا ہے کہ واقعہ میں 2 اضلاع کا ریکارڈ مکمل جل گیا ہے۔ آگ لگنے کے بعد علاقہ دھماکوں سے گونجتا رہا اور عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں امن وامان کے قیام کیلئے انتھک محنت سے جن دہشتگردوں کو گرفتار کیا تھا، عدالتوں میں ان کے مقدمات چل رہے تھے اور مال خانے میں آگ لگا کر ایسے سنگین مقدمات کے ثبوت مٹا دیئے گئے ہیں۔ ثبوت نہ ہونے سے کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں سمیت ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے والے خطرناک دہشتگردوں کی رہائی ممکن ہو جائے گی اور یہ دہشتگرد آزاد ہو کر پھر سے شہر کراچی کا امن تباہ کر سکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مال خانے میں 500 سے زائد قتل کے مقدمات کے جائے وقوعہ سے ملنے والے خون آلود کپڑے اور آلہ قتل بھی جل گئے، جس کے باعث قتل کے مقدمات کی سماعت میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ چاروں اضلاع کی عدالتوں میں کراچی آپریشن کے دوران پکڑے جانے والے متحدہ، لیاری گینگ وار، اے این پی، کالعدم قوم پرست جماعتوں، کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ و دیگر کالعدم تنظیموں سمیت دیگر گروپوں کے دہشتگردوں کو سخت سیکورٹی میں لایا جاتا ہے، کیس پراپرٹی جلنے سے خطرناک ملزمان کو فائدہ پہنچنے کا قوی امکان ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ، لیاری گینگ وار اور کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں کی جانب سے ملنے والا اسلحہ بھی مال خانے میں موجود تھا، جو آگ لگنے کی وجہ سے جل کر خاکستر ہوگیا۔ گرفتار دہشتگردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد تفتیشی افسران کورٹ میں پیش نہیں کرسکیں گے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کو سنگین کیسوں میں فائدہ پہنچے گا۔ قانونی ماہرین نے سٹی کورٹ مال خانے میں لگنے والی آگ کو تخریب کاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیس پراپرٹی کے بغیر مقدمات کمزور ہو جائیں گے، واقعہ کی شفاف تحقیقات عمل میں لائی جائیں۔ دوسری جانب فائر بریگیڈ حکام نے سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی سے متعلق ابتدائی رپورٹ مرتب کرلی، جس میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فائر ہیڈکوارٹر میں آگ کی اطلاع منگل اور بدھ کی درمیانی شب 2 بجکر 31 منٹ پر بذریعہ مددگار ون فائیو موصول ہوئی تھی، فائر ہیڈکوارٹرز سے 2 بج کر 33 منٹ پر پہلا فائر ٹینڈر روانہ کیا، جو 2 بج کر 38 منٹ پر سٹی کورٹ پہنچا تھا، جب پہلا فائر ٹینڈر سٹی کورٹ مال خانے پہنچا، تو آگ کی نوعیت معمولی تھی، صرف دھواں اٹھ رہا تھا، مال خانے کے دروازے بند ہونے کے سبب فائر فائٹرز کی آگ تک رسائی نہ ہو سکی۔ سٹی کورٹ تھانے کے ڈیوٹی افسر موجود تھے، جس نے مال خانے کے دروانے کھولنے سے انکار کر دیا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پولیس افسران کسی بڑے حادثے کے انتظار میں ہیں، 40 منٹ تک فائر فائٹرز ریسکیو آپریشن شروع نہ کر سکے، اس دوران آگ شدت اختیار کر گئی، اندر بارود پھٹنے سے دھماکے شروع ہوگئے۔ دھماکے سے مال خانے کی چھت گر گئی، آگ کو آکسیجن ملنے سے آگ زیادہ بھڑک اٹھی تھی، کے پی ٹی کا ایک فائر ٹینڈر اور پاک بحریہ کے 2 فائر ٹینڈرز کی بھی معاونت حاصل کی گئی، کے ایم سی کے 11 فائر ٹینڈر، ایک باؤزر اور اسنارکل سے صبح 7 بجے تک آگ پر مکمل قابو پا لیا گیا تھا۔

پولیس کی رپورٹ اس کے برعکس ہے، پولیس نے پردہ پوشی سے کام لیا، جبکہ کے پی ٹی کے انچارج نے بھی انکشاف کیا ہے کہ انہیں ڈیرھ گھنٹے تاخیر سے اطلاع دی گئی، چھت گرنے سے آگ کو آکسیجن ملی، جس سے آگ زیادہ پھیل گئی، مال خانے کے چاروں انجاچز بھی تاخیر سے پہنچے تھے۔ ایس ایچ او نے اس بات کا اعتراف کیا اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ مال خانے کا دروازہ بند اور سیل تھا، دروازہ فوری کیوں نہیں کھولا گیا، 40 منٹ تک کیوں انتظار کیا گیا، یہ وہ سوالات ہیں، جنہیں جاننے کیلئے صحافیوں اور میڈیا کو مال خانے دور رکھا جا رہا ہے۔ 10 اور 11 10 اپریل کی درمیانی شب کو سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی کو کئی روز گزر چکے، لیکن آگ لگی یا لگائی گئی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہفتے کو بھی مال خانہ کے چاروں اطراف سخت سیکیورٹی تھی اور پولیس اہلکار تعینات تھے، پورا علاقہ سیل تھا،کئی روز گزرنے کے باوجود تاحال مال خانے کی عمارت کو کلئیر قرار نہیں دیا گیا۔ چاروں اطراف سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار بیزار آگئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اندر کیا کچڑی پک رہی ہے، کچھ علم نہیں، مال خانہ افسران کیلئے پکنک پوائنٹ بن گیا ہے، مشروبات، بریانی، سگریٹ نوشی ہو رہی ہے، اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انہیں خاص طور پر ہدایت دی گئی ہے کی صحافیوں اور میڈیا نمائندوں کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ ڈی ایس پی رسالہ نبی بخش تھانہ کے ایس ایچ او اور انویسٹی گیشن کے انسپکٹر عادل نے سخت ہدایت جاری کی ہیں، معاملے کو دبانے کیلئے طول دیا جا رہا ہے، کوئی عملی تفتیشی کام نہیں ہو رہا، 11 اپریل کو ہی تمام معاملات ختم ہو چکے تھے, لیکن آگ لگی یا لگائی گئی ہے, اس معاملے سے افسران واقف ہو چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 718157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش