4
0
Thursday 26 Apr 2018 15:53

امریکہ، کوریا تعلقات پر ایک تازہ نظر

امریکہ، کوریا تعلقات پر ایک تازہ نظر
تحریر: عرفان علی

یکم اپریل ویسے تو بہت ہی بدنام ہے، کیونکہ اس دن کسی کو بھی اپریل فول کے عنوان سے بے وقوف بنانا عمومی طور پر برا نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ سال 2018ء کی یکم اپریل کو مسیحی تہوار ایسٹر تھا۔ لیکن ان دونوں مناسبتوں سے قطع نظر اس سال یکم اپریل ایک تاریخی اور یادگار دن تھا، کیونکہ امریکہ کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ مائیک پومپیو نے شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کرکے اس ملک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ملاقاتیں اور مذاکرات کئے تھے۔ پومپیو کو امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر خارجہ نامزد کر دیا ہے اور اگر سینیٹ نے منظوری دے دی تو وہی امریکہ کے اگلے مستقل وزیر خارجہ ہوں گے۔ اس ملاقات کا انتظام جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے شمالی کوریا میں اپنے ہم منصب کے ذریعے کیا تھا۔ یعنی سفارتکاروں (وزارت خارجہ) کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا، انہیں مکمل طور پر کھڈے لائن لگا دیا تھا۔ خاص طور پر ٹرمپ نے اس ایشو پر سفارتکاروں کی بجائے انٹیلی جنس ادارے پر اعتماد کیا۔ صرف یہی نہیں کہ پومپیو صاحب شمالی کوریا گئے بلکہ وہ شمالی اور جنوبی کوریا میں اپنے ہم منصبوں سے مستقل رابطے میں تھا۔ پومپیو کے اس دورے کے ذریعے شمالی کوریا کے حکمران (سپریم لیڈر) کم جونگ ان اور ٹرمپ کے مابین ملاقات کے لئے راہ ہموار کی گئی، جو مئی کے آخر یا جون کے پہلے عشرے میں متوقع ہے۔ اس سارے قضیے میں جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ سوہون کا کردار زیادہ اہم رہا، کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی شمالی کوریا کے حکمران نے ٹرمپ کو سربراہی ملاقات کی رسمی دعوت ارسال کی۔ اس ضمن میں شمالی کوریا کے طاقتور فوجی جرنیل کم یونگ چول نے انکی مدد کی تھی۔

شمالی کوریا اور امریکہ کی اہم سرکاری شخصیات کی ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ جیمز کلیپر جو امریکہ کی سارے انٹیلی جنس اداروں پر مشتمل قومی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے، انہوں نے 2014ء میں شمالی کوریا کا دورہ کیا تھا۔ اسوقت دو امریکی شہری شمالی کوریا میں قیدی بناکر رکھے گئے تھے۔ آج کل تین کوریائی نژاد امریکی شہری شمالی کوریا کی قید میں ہیں۔ 1990ء کے عشرے سے شمالی کوریا کے حکومتی عہدیدار بھی امریکی و جنوبی کوریائی حکومت کو وقتاً فوقتاً یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ اگر امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدہ کرلے اور اس سے تعلقات کو نارمل کرلے تو پھر اسے جنوبی کوریا میں امریکی فوج کی موجودگی پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ موجودہ حکمران کے والد اور پیش رو کم جونگ ال نے 1992ء میں اپنی پارٹی کے معتمد عمومی کم یونگ سون کو اسی پیغام کے ساتھ واشنگٹن بھیجا تھا۔ سال 2000ء میں جب شمالی و جنوبی کوریا کے حکمرانوں کی پیونگ یونگ میں ملاقات ہوئی، تب بھی دعویٰ کیا گیا کہ کم جونگ ال نے اپنے ہم منصب کم ڈائی جنگ کے سامنے یہی موقف دہرایا تھا۔ البتہ شمالی کوریا نے 2016ء میں ایک بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ خطہ کوریا نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک علاقہ بن جائے تو پھر وہ یہاں طویل رینج کے بمبار، آبدوز اور نیوکلیئر حملے کی صلاحیت کے حامل تمام اسلحے کو جنوبی کوریا اور اس کے اطراف میں لگانے کا عمل بند کر دے۔ شمالی کوریا نے امریکی افواج کی خطے سے دستبرداری کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یعنی شمالی کوریا اس خطے میں مہلک امریکی اسلحے کی موجودگی کے حق میں نہیں ہے۔ جنوبی کوریا میں 28,500 امریکی فوجی موجود ہیں۔ جاپان میں اس کے علاوہ ہیں۔

ٹرمپ اور کم جونگ ان کی اس ممکنہ ملاقات کے لئے پانچ مقامات کا نام زیر غور ہے۔ ایشیاء میں سنگاپور اور ویتنام جبکہ یورپ میں سوئیڈن اور سوئٹزر لینڈ۔ اور جو سب سے زیادہ شمالی کوریا سے نزدیک ہوسکتا ہے، وہ ہے منگولیا جو کہ چین اور روس کے درمیان واقع ہے۔ امریکی حکام کے مطابق شمالی کوریا کے پاس سوویت یونین دور کے طیارے ہیں، جن کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ طویل مسافت کے سفر کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ اس لئے تاحال منگولیا اس ملاقات کے لئے زیادہ مناسب ملک تصور کیا جا رہا ہے۔ یعنی اگر ملاقات امریکہ یا شمالی کوریا میں نہیں ہوئی تو ان پانچ مقامات میں سے کسی ایک جگہ یا ترجیحاً منگولیا میں ممکن ہے، لیکن اس ملاقات سے پہلے جمعہ 27 اپریل کی دو سربراہی ملاقاتیں بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ شمالی و جنوبی کوریا کے حکمران اور چین و بھارت کے حکمران کی دو علیحدہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ شمالی و جنوبی کوریا سربراہی ملاقات کے حوالے سے جاپان کا اعتراض سامنے آیا ہے۔ جاپانی وزارت خارجہ کے مطابق اس کے ایشیائی و اوقیانوسی امور کے سربراہ کینجی کناسوگی نے جنوبی کوریا کے سفارتخانے کو بتایا ہے کہ شمالی کوریا کے حکمران کے اعزاز میں عشایئے کے موقع پر مینگو ماؤس پیش کیا جائے گا اور اس موقع پر خطہ کوریا کا نقشہ بھی ہوگا، جس میں جزیرہ تاکیشیما (دوک دو) جزیرہ بھی شامل ہوگا۔ جاپان کا اس جزیرے پر دعویٰ ہے کہ یہ جاپان کا حصہ ہے۔ اس نقشے پر جاپان کی وزارت خارجہ کے مذکورہ شعبے کے سربراہ نے رسمی طور پر اعتراض کر دیا ہے اور کہا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا دونوں ہی امریکی اتحادی ہیں اور دونوں ہی میں امریکی افواج موجود ہیں۔ جاپان کے وزیراعظم نے اس ماہ امریکہ میں صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی کی ہے، لیکن اس مرتبہ ان کے دورے کے دوران ٹرمپ کا شمالی کوریا کے بارے میں لب و لہجہ نرم اور مثبت تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شمالی کوریا امریکہ کا احترام کرتا اور امریکی بھی۔ شمالی کوریا سے اچھے تعلقات کے بارے میں وہ پرامید دکھائی دیئے، جبکہ ماہ نومبر میں جنوبی کوریا میں خطاب کے وقت انکا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔ البتہ اس مرتبہ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر ملاقات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے یا انہوں نے محسوس کیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تو وہ ملاقات سے اٹھ کر چلے آئیں گے۔

شمالی و جنوبی کوریا کی سربراہی ملاقات کے حوالے سے جنوبی کوریا کے حکام اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے جو بیان یا خبریں آئی ہیں، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ خطہ کوریا سے فوجی کشیدگی و محاذ آرائی کے خاتمے کے حوالے سے فریقین کسی معاہدے پر اتفاق کر لیں۔ غیر فوجی زون میں تاحال فوجی موجود ہیں، اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ غیر فوجی زون کو واقعاً غیر فوجی زون بنانے کے لئے دونوں ملک فوجی انخلاء پر آمادہ ہو جائیں۔ ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کے موقع پر کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کی اپنی کم جون ان سے ملاقات سے پہلے شمالی و جنوبی کوریا کے سربراہان کوئی اہم معاہدہ کر لیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ 1953ء میں دونوں ملک میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، لیکن عملاً یہ جنگ تاحال جاری ہی ہے اور اس کو ختم کرنے کے لئے چین اور امریکہ کا کردار ناگزیر ہے، کیونکہ 1953ء کے معاہدہ پر ان دونوں کے دستخط بھی تھے۔ چین بھی دونوں کوریا کے مابین امن معاہدے کی حمایت کرتا ہے، لیکن امریکی اتحادی جاپان کو شمالی کوریا کے عزائم پر شک ہے، حالانکہ جنوبی کوریا کے صدر مون جائی ان نے اخباری مالکان سے دارالحکومت میں ملاقات میں واضح کیا تھا کہ شمالی کوریا نے ایسی کوئی بھی شرط پیش نہیں کی، جو امریکہ قبول نہ کرے۔ ایک طرف جمعہ 27 اپریل مون جائی ان اور کم جونگ ان کی اہم ملاقات ہو رہی ہے تو دوسری جانب چینی صدر شی چن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی میں غیر رسمی ملاقات ہوگی، جس کا کوئی ایجنڈا پہلے سے طے نہیں ہے کہ کن کن امور پر گفتگو ہوگی۔

یہ ملاقات اس لئے اہم ہے کہ بھارت بھی اس خطے میں امریکہ کا اہم اتحادی ہے، جو چین کا پڑوسی ہے۔ جو صورتحال پاکستان کو بھارت اور افغان سرحدوں پر درپیش ہے، چین کو جاپان اور بھارت کی سرحدوں سے امریکی عزائم کی تکمیل کے خدشات ہیں۔ اس کے باوجود چین اور بھارت کے نرم گرم تعلقات چلتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ دوستی کا سال مناتے ہیں تو کبھی بھوٹان کے ٹرائی جنکشن پر فوجی کشیدگی پیدا کر لیتے ہیں۔ کبھی چین برکس کے پلیٹ فارم سے بھارت کو خوش کرنے والا گول مول بیان جس میں نام لئے بغیر پاکستان پر تنقید ہو، پر راضی ہو جاتا ہے تو کبھی فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں بھارت اور امریکہ کی خوشنودی کے لئے سعودی عرب کی طرح پاکستان کے خلاف ووٹ دے دیتا ہے اور کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں پاکستان کو بچانے کے لئے ووٹ بھی دے دیتا ہے۔ سیاست ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات بھی ممکنات کا ہی ہنر ہیں۔ چونکہ چین بھارت کے ساتھ سرحد پر معاملات کو مکمل نارمل کرکے خود کو خطے میں امریکی سازشوں کے مقابلے میں محفوظ بنانا چاہتا ہے، اس لئے یہ ملاقات بھی اہم ہوگی، لیکن بھارت اور چین کا ممکنہ دوستانہ پاکستان کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ جہاں تک امریکہ کا شمالی کوریا سے تعلقات نارمل کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکی بلاک جعلی ریاست اسرائیل کو بچانے کے لئے مشرق وسطٰی میں ایران، شام اور ان کے اتحادیوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی تیاری میں مصروف ہو اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے دیگر محاذوں کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنا چاہتا ہو کیونکہ مشرق وسطٰی کے حوالے سے امریکی بلاک عراق و لبنان کے عام انتخابات میں گڑبڑ اور دھاندلی کروا کر نیا محاذ کھول کر نیا سیاسی بحران ایجاد کرنے کے چکر میں بھی ہے اور شام پر میزائل حملے کسی جنگ کی ریہرسل کے طور پر بھی لی جاسکتی ہے۔
(نوٹ: تازہ ترین خبر یہ ہے کہ شمالی کوریا میں نیوکلیئر تجربات کا اہم مقام جزوی طور پر منہدم ہوچکا ہے اور اس کی وجہ وہاں کئی دھماکے بتائی جا رہی ہے۔ چینی جیالوجسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا ہوا ہے۔ اس طرح ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے کہ شمالی کوریا تاحال نیوکلیئر تجربات کر رہا ہے۔ اس طرح ایک مفروضہ یہ بھی بن سکتا ہے کہ اس رپورٹ کو بہانہ بنا کر امریکی بلاک چاہے تو تعلقات بحالی کا جاری عمل معطل بھی کرسکتا ہے۔)
خبر کا کوڈ : 720745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ali muhammad
Masha Allah intihaaie maloomati article hey , yes I know it that Mr Irfan Ali is a reknown journalist .subhanallah ..
ممنون. حوصلہ افزائی کا شکریہ. التماس دعا.
سرفراز
Pakistan
بہت خوب عرفان صاحب
Pakistan
Thanks
ہماری پیشکش