0
Saturday 28 Apr 2018 22:30

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
تحریر: سید اسد عباس

شیعہ قتال ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بات کرنا، کچھ لکھنا، کچھ کہنا بہت عجیب لگتا ہے۔ ساتھ ساتھ جی کڑھتا بھی ہے کہ ہم دنیا بھر میں ہونے والے مظالم پر تو آواز اٹھاتے ہیں، تاہم اپنے ملک میں ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں۔ کیا آئے روز قتل ہونے والے انسانوں کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ ان کے بے جرم بہائے جانے والے لہو پر آواز بھی بلند نہ کی جائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس ملک میں خون کے قطروں کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہی، وہاں قلم و قرطاس پر بکھرے سیاہی کے دھبوں کی کیا اہمیت و افادیت ہوگی، تاہم ضمیر کی آواز کو دبائے رکھنا ممکن نہیں ہے۔ بقول شاعر
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ
کوئٹہ میں آئے روز قتل ہونے والے ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے روز دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شیعہ مسلک کے لوگ، پاکستان بھر میں مذہب کے نام پر قتل ہونے والے افراد جن میں زیادہ کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے، آخر کار کس سے شکوہ کریں؟ کس کو اپنا حال دل سنائیں، کس سے اپنے دکھوں کا مداوا چاہیں؟ کون پاکستان میں شہریوں کی حفاظت اور دفاع کا ذمہ دار ہے۔؟

گذشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک شہید کی بیوہ سے ملاقات ہوئی، جن کے شوہر 2007ء میں قتل کر دیئے گئے تھے۔ اس بیوہ کا تعلق اگرچہ ایک صاحب ثروت خانوادے سے تھا، تاہم آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے امور کو چلانے کے لئے پائی پائی کی محتاج ہیں۔ شہید کے چار بچے جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں، اپنے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے اخراجات کے لئے اپنے اقرباء کی جانب سے والد کا حق ملنے کے منتظر ہیں۔ بزرگ خاتون کے بقول یہ اقرباء بچوں کو جائز حق بھی دینے پر آمادہ نہیں۔ زندگی کے اگلے مراحل میں درپیش چیلنجز منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ تعلیم یافتہ بزرگ خاتون جس کا تعلق سادات کے گھرانے سے ہے، اپنی زندگی کا پہیہ چلانے، بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ملازمتیں تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ فقط ایک صاحب ثروت شہید کے خانوادے کی صورتحال ہے، ہزاروں ایسے گھر ہیں، جن کے شہید صاحب ثروت نہ تھے، تنہا کمانے والا مذہبی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ خدا جانتا ہے کہ ان خانوادوں پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی۔ والد، بھائی، سرپرست کی شہادت کا صدمہ تو اپنی جگہ، بے رحم زندگی کی مشکلات کسی بھی قیامت سے کم نہ ہوتی ہوں گی۔ نہیں معلوم کتنی لاچار خواتین نے اپنی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے وہ کام کئے ہوں گے، جن کا انہوں نے زندگی میں کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

کس کو ان محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ قاتل کو، ورثاء کو، ذمہ داران کو، حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کو، بے حس عوام کو یا حکومت کو؟ کسی کو تو اس سب ظلم و بربریت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوگا۔ رسالت مآب کی حدیث کو دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص ذمہ دار اور مسئول ہے۔ سرد مہر قاتل، شہریوں کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت، عسکری ادارے، لاوارث چھوڑ دینے والے ورثاء، انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں، قیادتیں، سردار، سرپنچ، اہل خبرہ اور بے حس عوام ہر کسی کو نہ صرف اس بے گناہ خون پر بلکہ اس خون کے بعد اس کے خانوادے سے پہلو تہی پر جواب دہ ہونا پڑے گا۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، جب یتیموں کی کسمپرسی اور بالخصوص شہداء کے یتیموں کی بے چارگی پر نظر پڑتی ہے۔ ابو الیتامیٰ امیرالمومین علیہ السلام کے وہ جملے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں کہ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں! یتیموں کو فراموش نہ کرنا، ان کے دہن کو خوراک کا انتظار نہ کروانا اور ہوشیار رہنا کہ وہ بھوکے نہ رہیں اور تمہاری وجہ سے ان کا حق تلف نہ ہو۔ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاست اور اس کے ادارے ذمہ دار تھے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے، اگر کسی ناگہانی واقعہ میں کوئی قتل ہو جاتا یا کوئی ویسے یتیم و لاچار ہو جاتا تو ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ان کا دفاع کرتی، تاہم اس ریاست کا اسلامی ہونا اور اس کے اداروں کی ذمہ داریاں فقط اصولی دستاویزات اور فائلوں تک محدود ہیں۔ ملک کے اداروں کی لاپرواہی کے سبب یتیموں اور لاچاروں کی ایک کھیپ ہے، جو تیار ہو رہی اور معاشرتی مسائل کا ایندھن بن رہی ہے۔

جہاں کوئی بھی مجرم یا قاتل بے گناہ خون بہانے کے جرم میں اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہوگا، وہیں یتیموں کے ورثاء بھی اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں کہ انہوں نے اپنے شہید یا عزیز کے یتیموں کے ساتھ کیا رویہ رکھا، ان کو یقیناً جواب دینا پڑے گا کہ ان کی سرد مہری اور لاپرواہی کے سبب ایک خانوادہ زندگی کی سختیوں سے دوچار ہوا اور لاوارثوں کی مانند لوگوں کے دروازوں پر جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ یتیموں کا حق غصب کرنا تو شاید ان کے سرپرست کے قتل سے بھی بڑا جرم ہے، کیونکہ وہاں تو ایک فرد ایک دفعہ قتل ہوا، یہاں ایک کنبہ ہر روز قتل ہوتا ہے۔ سرپنچ، سردار، قائد، لیڈر، انسانی حقوق کے علمبردار، موثر افراد اور بے حس عوام بھی اپنی اپنی سطح پر بہت سے دیگر امور کی مانند یتیموں کے معاملے میں اللہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ اللہ کی اس زمین پر ایسے لوگ بھی ہیں، اللہ کی رضا کے لئے معاشرے میں لاچار کر دیئے جانے والے افراد کے سروں پر دست شفقت رکھتے ہیں، ان کا اجرو ثواب یقیناً خدا کی بارگاہ میں محفوظ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کا خود تعین کرے، کیونکہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ حکومت اور ریاستی ادارے جو شہریوں کے تحفظ کے معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، ہوش کے ناخن لیں۔ آخر کب تک نامعلوم لوگ ایک گروہ کو اس کی مذہبی شناخت کے سبب قتل کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک مقتول خاموشی سے قتل ہونا پسند کرے گا؟ کب تک اس کی امن پسندی اور حب الوطنی کو آزمایا جاتا رہے گا؟ ان مسائل کو حل کرنا ملکی اداروں کے اختیار اور استطاعت سے باہر نہیں ہے۔ کراچی میں طویل نقص امن کے بعد ریاستی اداروں نے اپنی رٹ کو بحال کیا، جو اس کی روز اول سے ذمہ داری تھی۔ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ بھی ایسے ہی اقدامات کے منتظر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 721158
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش