0
Saturday 29 Dec 2018 22:14

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امن کا جو راگ ایک عرصہ سے الاپا جا رہا تھا، وہ فریب کے سوا کچھ نہیں اور اہل تشیع کو  نشانہ باندھ کے مارنے کا سلسلہ بھی اپنے تئیں جاری و ساری ہے۔ اگرچہ فرقہ واریت کے خاتمے کی صدائیں بھی بہت بلند کی جا رہی تھیں، کلایہ میں ہونے والا دھماکہ اہل تشیع کے قتل عام اور ان پر مسلط دہشت گردی ہی تو تھی، جو گذشتہ ماہ واقع ہوئی۔ اس کے بعد حالیہ دنوں میں 25 دسمبر کو کراچی میں نامور پارلیمینٹرین اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما سید علی رضا عابدی کا بہیمانہ قتل بھی اسی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ہی ایک سلسلہ ہے، جو کچھ دنوں کیلئے روک دیا جاتا ہے اور پھر جب ان کا دل کرتا ہے، ایک بٹن کے ذریعے اسے چالو کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل تشیع اس ملک میں سب سے آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں اور ایسا ہدف جن کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آنا ہوتا، حتی کئی بار تو ہماری غیرت کا امتحان لینے کیلئے مسلسل دہشت گردی کا سلسلہ چلایا جاتا، تاکہ دیکھا جائے کہ ملت میں کتنا دم خم ہے، احتجاج کے قابل ہے، آواز بلند کرسکتی ہے یا دم توڑ گئے ہیں سارے جذبے و جذبات۔

کراچی میں علی رضا عابدی کا قتل اگرچہ کئی جوانب اور امکانات کی طرف متوجہ کرتا ہے، مگر یہ بات طے ہے کہ جس کی طرف سے بھی یہ کاروائی کی گئی ہے، اس کو ایک شیعہ، ایک فعال اور نامور شیعہ ہی نظر آیا ہے۔ بالفرض محال اگر یہ قتل ایم کیو ایم لندن کی کارروائی ہے تو اس نے بھی صرف علی رضا عابدی ایک شیعہ کو ہی کیوں منتخب کیا اس کام کیلئے۔ اسی طرح اگر یہ قتل ایم کیو ایم کے اندرونی گروپس جو کراچی میں سرگرم عمل ہیں اور جن میں سے کم از کم دو گروپس پہ اس سے قبل حملے ہوچکے ہیں، ایک کے محفل میلاد پہ حملہ ہوا اور دوسرے گروپ کے دو کارکن ٹارگٹ کیئے گئے اور اب علی رضا عابدی جو ان دونوں گروپوں سے ہٹ کے ایک اتحاد کی کوشش کرنے والا صلح جو، امن پسند اور سلجھا ہوا انسان تسلیم کیا جاتا تھا، اسے قتل کر دیا گیا اور وہ بھی عین اس کے گھر کے دروازے پہ، جہاں اس کا گارڈ بھی موجود تھا۔ یہ دیدہ دلیری کی بات ہے، ورنہ ویڈیوز کے مطابق تو قاتل کافی دور سے پیچھا کرتے آرہے تھے۔

کراچی میں جب ٹارگٹ کلنگ عروج پہ تھی تو اس میں سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے گروپس ملوث ہوتے تھے، ایم کیو ایم میں چونکہ ہر قوم و مکتب کے لوگ وافر تعداد میں موجود تھے، لہذا ان کا مافیا اسٹائل میں منظم ہونا کوئی عجوبہ کی بات نہیں تھی۔ یہ واقعی مافیا اسٹائل میں کام کرتے تھے، آپ دیکھیں کہ کتنا منظم دہشت گردی کا نیٹ ورک تھا کہ صبح ایک شیعہ وکیل کو مارا تو دوپہر یا شام تک مخالف فرقہ کے وکیل کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ ایسا بھی ہوا کہ صبح تین شیعہ بھائیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا، شام کو دیوبندی بھائی نشانہ بن گئے، حد تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے اہل تشیع کا ڈیٹا اکٹھا کرتے تھے اور بانیان مجالس، تنظیمی عہدیداران، انجمنوں کے عہدیدار، ماتمی، اہم افراد قوم اور امام بارگاہوں کے متولیان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز چنیدہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا تھا، تاکہ انہیں نشانہ بنایا جاسکے اور کراچی ہی سب سے بڑا شہر ہے، جہاں پر سینکڑوں ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس مافیا کے دہشت گرد شیعوں میں شیعوں کے بھیس میں ہوتے تھے اور دوسری طرف کالعدم جماعتوں میں ان کے بھیس میں ان کے بٹن اور کنٹرول ان کے بڑوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا، جس طرف سے چاہتے شروع کر دیتے۔

ڈیٹا اور ریکی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، اس لئے سب سے زیادہ کامیاب اور کھلی دہشت گردی کی جاتی تھی، ایم کیو ایم کا نیٹ ورک اگرچہ کافی حد تک کنٹرول ہوگیا ہے اور بہت سے لوگ جیلوں میں پڑے ہیں، بہت سے غائب کر دیئے گئے اور کچھ خود غائب ہوگئے ہیں، مگر ایسا نہیں کہ یہ مافیا مکمل طور ختم ہوگیا ہے، یہ جراثیم مکمل ختم نہیں ہوئے نہ ہی ہوسکتے ہیں۔ لوگوں کے مفادات اس گھنائونے کاروبار سے منسلک ہیں اور کراچی ایسا شہر ہے، جہاں آبادی اور غربت کا حساب کتاب ہی نہیں، گوٹھوں اور کچی بستیوں سے لیکر بلند وب الا فلیٹس کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کو مکمل ختم کرنا شائد ممکن ہی نہ ہو۔ یہاں پر عالمی طاقتیں اور دشمن ممالک کی ایجنسیاں بھی بہت ایکٹو ہیں اور وہ بھی ایسے گروہوں اور جماعتوں کو سپورٹ فراہم کرتی ہیں، جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور امن و امان کو سبوتاژ کرنے میں ماہر ہیں۔ چین کے سفارت خانے پر ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی اگرچہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کی تھی، مگر یہ بھی دیکھیں کہ لیاری سارا بلوچوں سے بھرا پڑا ہے، یہاں گینگ وار میں بہت ہی معمولی گھرانوں کے کم عمر لڑکے شامل رہے ہیں اور مارے بھی گئے ہیں، جبکہ کئی ایک جیلوں میں پڑے ہیں۔

لیاری کے گینگسٹرز کو کالعدم جماعتوں کے رہنمائوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے، یہ ایک کھلا انکشاف ہے کہ لیاری کے گینگسٹرز کو کالعدم فرقہ پرستوں نے اپنی محافل میں بلایا، انہیں پگڑیاں پہنائی اور ان کیساتھ تصاویر بنوائیں، یہی گینگسٹرز ایران اور پاکستان کے بلوچستان میں بھی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کراچی میں فرقہ وارانہ یا دیگر حوالے سے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں اگرچہ ایم کیو ایم کا فیکٹر سب سے زیادہ موثر رہا ہے، مگر دیگر فیکٹرز میں سب سے زیادہ اہم فیکٹر خود پولیس اور سکیورٹی اداروں کے شوٹرز کا کردار بھی ہے، جو بے حد مشکوک رہا ہے، مختلف وارداتوں کو جان بوجھ کے ایسے لوگوں پر ڈالا گیا ہے، جن کے بارے واضح علم ہے کہ جس پر ڈالا جا رہا ہے، یہ اس کا کام نہیں ہے۔ اس لئے کہ بہت سارے کیسز میں سکیورٹی اداروں نے ایسے لوگوں کو ملوث قرار دیا، جو پہلے سے پولیس یا سکیورٹی اداروں کی تحویل میں تھے۔ علی رضا عابدی کے قتل ناحق کے حوالے سے بھی یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ پولیس اس کیس کو خراب کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

یہ اہم ترین قتل کا کیس خراب کیا جا رہا ہے اور ایک ایسے لڑکے پر ڈالا جا رہا ہے، جو پہلے سے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے۔ عباس نامی نوجوان جو شارجہ سے پاکستان آیا تھا، اسے ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، اس کا واپسی کا ٹکٹ بھی کنفرم تھا، مگر اداروں نے اسے ایئر پورٹ سے اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تین ماہ قبل اکتوبر 2018ء کو عباس کو دبئی سے کراچی واپسی پر گرفتار کرکے لاپتہ کر دیا گیا تھا اور آج اسی عباس کی علی رضا عابدی قتل کیس میں گرفتاری ظاہر کی جا رہی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسے کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ یہ تین ماہ قبل سے ہی خفیہ اداروں کی تحویل میں تھا، (واپسی کا ائیر ٹکٹ موجود ہے، اغوا کی عدالت میں پٹیشن بھی 2 ماہ پہلے سے داخل ہے)۔ اس حوالے سے وآئس آف شیعہ مسنگ پرسنز سید راشد رضوی نے کہا ہے کہ ہم شیعہ قتل بھی ہو رہے ہیں اور لاپتہ بھی ہو رہے ہیں، نہ تو ہمارے قاتلوں کا سراغ ملتا ہے نہ مسنگ پرسنز کا۔ اب یہ نیا کھیل شروع ہوچکا ہے کہ لاپتہ افراد کو قربانی کے بکرے بنا کر اپنی کسٹڈی میں رکھا جا رہا، تاکہ جب بھی کوئی سانحہ ہو تو کسی بھی مسنگ پرسن کی گرفتاری ظاہر کرکے سارا الزام اس پہ ڈال دو، تاکہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر جو پریشر پڑتا ہے، اسے دور کرکے عوام کو بیوقوف و گمراہ کیا جاسکے۔
 
راشد رضوی نے کہا کہ پہلے ہم قتل ہوتے تھے، لاپتہ ہوتے تھے، یہ اب ہمارے لئے ایک نیا چیلنج سامنے آیا ہے کہ ہمارے ہی شیعہ لاپتہ عزاداروں و زائرین کو ہمارے ہی قتل میں ملوث کیا جا رہا ہے اور ہماری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کی جانی والی جدوجہد کو روکنے کے لئے ہمارے ہی مسنگ پرسنز کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاراچنار کے ایک مومن ناصر حسین کو بھی پانچ سال تک غائب رکھنے کے بعد اس کی میت اس کے گھر والوں کے سپرد کی گئی ہے، جس پر شدید احتجاج بھی ہوا ہے۔ یہ ظلم کی داستان ہے کہ ہم قتل بھی کئے جائیں اور جیلوں میں بھی ڈالے جائیں۔ ہمارے قتل کے الزامات بھی ہمارے ہی اسیران پہ لگائے جائیں۔ یہ کونسا پاکستان ہے، یہ کونسا نیا پاکستان ہے، جس میں ظالموں کو مکمل پروٹو کول دیا جا رہا ہے، انہیں دورے کروائے جا رہے ہیں، اسی صف میں اہل تشیع کو بھی کھڑا کیا جاتا ہے، ایسے ممکن نہیں کہ اس ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو اور کھویا ہوا امن لوٹ آئے، ہم بس یہ کہیں گے۔۔۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
خبر کا کوڈ : 769259
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش