0
Tuesday 5 Mar 2019 20:03

مسئلہ کشمیر کے تناظر میں تقسیم گلگت بلتستان ناممکن ہے

مسئلہ کشمیر کے تناظر میں تقسیم گلگت بلتستان ناممکن ہے
تحریر: شیر علی انجم

گذشتہ روز گلگت میں کچھ گمنام لوگ اچانک منظر عام پر آگئے، جنکا نام گلگت بلتستان کے سیاسی میدان میں کبھی کسی نے سُنا ہی نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے گلگت میں دھواں دار پریس کانفرنس کرکے بڑا مطالبہ پیش کردیا۔ اُس پریس کانفرنس میں دو افراد پر مشتمل بنام تحریک آئینی حقوق نے مطالبہ کیا کہ استور اور بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا فریق سمجھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ تک متنازعہ رکھا جائے اور گلگت، غذر، نگر، ہنزہ اور دیامر پر مشتمل الگ آئینی صوبہ بنایا جائے۔ اُنہوں نے استور اور بلتستان کے عوام پر احسان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کہ مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کے بعد یہ دونوں علاقے چاہیں تو ہمارے ساتھ دوبارہ شامل ہو سکتے ہیں۔ تاریخ سے نابلد اُن افراد کا یہ بھی فرمانا تھا کہ خنجراب سے گلگت اور دیامر تک کا علاقہ مبینہ طور پر کشمیر میں شامل ہونے کی وجہ سے متنازعہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ حقیقت کے برخلاف ہے۔ انہوں دلیل پیش کی کہ مغلوں اور ان سے پہلے کے حکمرانوں کے دور حکومت میں یہ علاقے کبھی بھی کشمیر کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ انگریزوں اور مہاراجہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ امرتسر دریائے سندھ کے مشرقی علاقے تک محدود تھا، اس میں گلگت سے چترال تک دریائے سندھ کے مغربی کنارے شامل نہیں تھے۔ دریا ئے سندھ کے مشرقی اور بائیں جانب کے علاقے استور سے بلتستان، سکردو، کارگل لداخ تک کشمیر اسمبلی میں نمائندگی رکھتے تھے جبکہ گلگت، چلاس، کوہستان عذر گوپس اشکومن یاسین چترال اور ہنزہ نگر کو کھبی بھی کشمیر اسمبلی میں نمائندگی حاصل نہیں رہی۔

اس لئے جب یہ علاقے کشمیر اسمبلی میں شامل ہی نہیں رہے تو پھر انہیں کشمیر کی نسبت سے متنازعہ علاقہ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے یہ فارمولہ کوئی نیا کارخیر نہیں بلکہ یہ ایک طویل مدتی سازش کا حصہ ہے۔ اس فارمولے کو دو ہزار سولہ میں وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن نے پیش کیا تھا جسے جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر استور سے تعلق رکھنے والے مولانا سمیع نے بےنقاب کیا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں گلگت بلتستان ایک وحدت کا نام ہے جسے تقسیم کرنا نہ صرف ناممکن ہے، بلکہ ایسا کرنے کی کوشش کرنے پر بھی گلگت بلتستان میں صورتحال خراب ہو سکتی ہے، لیکن جو نقشہ گذشتہ روز کھینچا گیا اُس تناظر میں اگر بات کریں تو پہلی بات یہ ہے کہ معاہدہ امرتسر ہو یا معاہدہ کراچی یہاں کے عوام کی منشاء کے خلاف بنائے گئے تھے اور عوام سے رائے لئے بغیر قوموں کے مستقبل کا سودا ہوا جو کہ انسانی تاریخ کی المناک داستان ہے لیکن آج یہ معاہدے قانون بن چُکے ہیں اور اُس قانون کو اقوام عالم تسلیم کرتی ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ معاہدہ امرتسر سے کئی سال پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کرنل زور آور سنگھ نے 1840ء میں پورے لداخ پر طاقت کے بل بوتے کی بنیاد پر قبضہ کرکے بلتستان کے بادشاہ احمد شاہ مقپون کو خاندان سمیت گرفتار کرکے کشمیر لے گیا تھا، اُنکی اولادیں آج بھی مقبوضہ کشمیر میں آباد ہیں۔ دوسری بات معاہدہ امرتسر کے بعد گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے کرنل سید تنھو شاہ نے ڈوگرہ فوج کے خاندانی طور پر راجپوت ہندو گلاب سنگھ آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1841ء کے آواخر میں گلگت پر حملہ کردیا جس میں اُنہیں کامیابی ملی۔

تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ وہ گلگت آکر بس گئے اور یہاں شادی بھی کی اور آج بھی یقینا گلگت میں اُن کی نسل کے لوگ موجود ہوں گے۔ یوں یہ بات طے ہوگئی کہ معاہدہ امرتسر سے پہلے ہی ڈوگروں نے گلگت اور لداخ پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر ہنزہ، نگر، اور چترال کے علاقوں پر قبضہ کرنے میں ڈوگروں کی مدد کی۔ قبضے کی جنگ میں گلگت کے کئی علاقے چلاس سمیت لڑائی بھی شامل تھے، جس میں برطانوی فوج کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اس جنگ میں برطانیہ کے سب سے بڑے تین فوجی اعزاز ملٹری کراس بھی دیئے گئے۔ یہ اس علاقے کی دفاعی اہمیت کا تقاضا تھا کہ انگریزوں نے 1935ء میں مہاراجہ کشمیر سے دوبارہ ساٹھ سال کے لئے پٹے پر حاصل کرکے گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر (پونیال، گوپس، یاسین اور اشکومن) کے علاقے کو برٹش انڈیا کے ساتھ ملا کر اپنے پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے دہلی کے زیر انتظام کردیا۔ آج گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کیلئے حفیظ الرحمٰن اور اُنکے دیگر ہمنوا معاہدہ 1935ء کا ذکر کرتے ہیں اور اُسی معاہدے کو بنیاد بنا کر حقوق دلانے میں مکمل ناکام لوگ گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ اس معاہدے کو بنیاد بنا کر گلگت بلتستان کو تقیسم کرنے کی سازش کا انکشاف گذشہ سال سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق نے بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات میں کی تھی۔ معاہدہ 1935ء کیا ہے؟ عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرنل بیکن گلگت ایجنسی میں برطانیہ کا آخری پولٹیکل ایجنٹ تھا, اس سے پہلے بلتستان لداخ وزارت کا حصہ تھے اور براہ راست کشمیر دربار کے زیر کنٹرول تھے۔

معاہدہ 1935ء کے آرٹیکل 1 کے تحت گورنر جنرل آف انڈیا نے گلگت ایجنسی میں سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قائم کرنے کا اختیار حاصل کیا، لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ علاقے بدستور مہاراجہ کی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہے گا اور مہاراجہ جموں و کشمیر کی ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا رہے گا۔ اُس معاہدے کے آرٹیکل 5 کے تحت یہ ایگریمنٹ 60 سال تک نافذالعمل تھا، جبکہ آرٹیکل 4 کے تحت مائننگ کے تمام اختیارات مہاراجہ کشمیر کو ہی حاصل تھے۔ یوں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکم نومبر 1947ء کی جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت بلتستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں مہاراجہ ہری سنگھ کو جوابدہ اور ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے، لیکن یکم اگست 1947ء کو گلگت ایجنسی کے آخری پولٹیکل ایجنٹ کرنل بیکن نے گلگت ایجنسی وقت سے پہلے مہاراجہ کشمیر کو واپس کردیا اور گلگت ایجنسی سے برطانیہ کا جھنڈا سرنگوں کرکے کشمیر دربار کا جھنڈا لہرا دیا۔ اسکے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنا بھانجا بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو بطور گورنر گلگت (جسے دوبارہ وزارت لداخ میں شامل کردیا اور بلتستان پہلے ہی وزارت لداخ کا ہی حصہ تھے) مقرر کرکے نیا نام شمالی علاقہ جات سرحدی صوبہ رکھ دیا گیا اور یہی نام یو این سی آئی پی میں استعمال کیا گیا۔ اس صوبے کا نام گلگت بلتستان لداخ صوبہ بھی کہتے رہے ہیں اور اس صوبے کا ٹوٹل رقبہ 63500 مربع میل ہے اور ریاست جموں کشمیر 75 فیصد رقبہ گلگت بلتستان لداخ کہلاتے ہیں، اور کرنل گھسنارا سنگھ انقلاب گلگت کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور اُنکا جھنڈا بھی سرنگوں ہوگیا، لیکن 16 نومبر کو آزاد کردہ علاقے ایف سی آر کے تحت قید ہوگیا اور آج تک پیکج تبدیل ہو رہا ہے۔

اسی طرح اگر ہم انقلاب گلگت کی روشنی میں اس حوالے سے ذکر کریں تو تاریخ کی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ انقلاب گلگت کے بعد عبوری کونسل کی تشکیل کے وقت میجر براؤن میر آف ہنزہ میر جمال کو ریاست گلگت کا صدر بنانے کے خواہاں تھے لیکن انقلاب گلگت کے بانی کرنل مرزا حسن خان نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ گلگت کے میروں اور راجاؤں نے اب سے صرف تین مہینہ پہلے مہاراجہ کشمیر سے عہد وفا کا حلف لیا ہے، لہٰذا مہاراجہ سے بغاوت کے نتیجے میں قائم ریاست کا صدر مہاراجہ کشمیر کا وفادار منتخب ہونا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ شاہ رئیس خان کو سولہ دن پر مبنی ملک کے صدر بننے کا اعزاز ملا۔ یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ یکم نومبر 1947ء تک گلگت ایجنسی براہ راست کشمیر دربار کے ماتحت تھی۔ عرض یہ ہے کہ آج جو بھی لوگ گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ گلگت بلتستان کو اس خطے کی بین الاقوامی حیثیت اور ریاست پاکستان کی پالیسی کے مطابق حقوق دلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چُکی ہیں اور اُنکی خواہش ہے کہ یہاں اب مزید حقوق کے نام پر مسائل پیدا نہ ہوں، اس لئے اس عظیم خطے کو ٹکرے کرنا چاہتا ہے جو کہ مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔،بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے مسئلے کو لیکر مسئلہ کشمیر کو خراب کئے بغیر اس خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کو روک کر مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے 13 اگست 1948ء کے اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں داخلی خودمختاری دیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سفارتکاری کے ذریعے کوششوں کو تیز کریں اور رائے شماری کیلئے گراؤنڈ تیار کریں۔
خبر کا کوڈ : 781566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش