1
Wednesday 6 Mar 2019 13:03

برطانیہ کی یمن میں قتل اور نابودی کی تجارت

برطانیہ کی یمن میں قتل اور نابودی کی تجارت
تحریر: ہادی محمدی

برطانیہ کے وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے حال ہی میں عمان کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے انصاراللہ یمن کے نمائندوں سے بھی ملاقات اور بات چیت کی ہے۔ انصاراللہ یمن کے نمائندوں نے انہیں منصور ہادی کی فورسز کی جانب سے سویڈن معاہدوے کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یاد رہے انصاراللہ یمن اور سابق صدر منصور ہادی کے درمیان الحدیدہ شہر اور بندرگاہ کے بارے میں سویڈن میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے تمام جارح قوتوں کو الحدیدہ بندرگاہ سے پیچھے ہٹنا تھا اور سعودی اتحاد کی جانب سے الحدیدہ سمیت یمن کے تمام شہروں پر بمباری بھی بند کرنا تھی۔ برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ عمان سے ریاض گئے جہاں انہوں نے سعودی حکام اور منصور ہادی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ برطانوی وزیر خارجہ نے منصور ہادی کے نمائندوں سے ملنے کے بعد سویڈن معاہدے میں چند شقوں کا اضافہ کر دیا۔ منصور ہادی کا موقف ہے کہ سویڈن میں طے پانے والا معاہدہ انصاراللہ یمن کے حق میں ہے لہذا اس پر نظرثانی ضروری ہے۔ منصور ہادی نے دوبارہ مذاکرات نہ ہونے کی صورت میں وسیع پیمانے پر جنگ شروع ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔
 
جب سویڈن میں انصاراللہ یمن اور منصور ہادی کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو برطانوی حکام ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی سلطنتی خاندان کی طرح عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید سیاسی دباو میں تھا۔ ایک طرف سعودی صحافی جمال خاشقجی کا استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کا مسئلہ عروج پر تھا اور دوسری طرف یمن میں شدید قحط، غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ ایسے حالات میں سعودی سربراہی میں جارح اتحاد جنگ بندی پر مجبور ہو گیا تھا لہذا سویڈن معاہدہ طے پا گیا۔ لیکن اب جب کافی حد تک حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ان ایشوز کی کوریج بھی گر گئی ہے تو برطانیہ اور فرانس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر یمن میں دوبارہ خون کی ہولی کھیلنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے جرمنی پر بھی کڑی تنقید کی ہے جس نے انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی کے باعث سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
 
 یمن کا ملک ایک انتہائی اہم اور جیو اسٹریٹجک پوزیشن پر واقع ہے۔ یہ ملک خام تیل، گیس اور قدرتی ذخائر سے مالامال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یمن کے تیل کے ذخائر سعودی عرب کے ذخائر سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس عظیم دولت نے امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے دل میں لالچ پیدا کر دی ہے اور سمندری قزاق برطانوی حکمرانوں کی رالیں بھی ٹپکنا شروع ہو گئی ہیں۔ لہذا ان ممالک نے یمن میں بدامنی اور جنگ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے رکھا ہے اور اپنے شیطانی اہداف کی تکمیل کیلئے انتہائی فریبکاری پر مبنی مذاکراتی عمل بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ سعودی حکام ایک طویل ماضی سے یمن پر غاصبانہ اور حریصانہ نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں لیکن اس وقت وہ امریکی صہیونی استعماری منصوبے کے تحت سرگرم عمل ہیں اور خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے نوکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سعودی حکام اپنی طاقت اور اثرورسوخ کا بقا امریکہ اور اسرائیل کی غلامی میں دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی رضامندی پر مبنی اپنے اسٹریٹجک ہدف کے حصول کیلئے ہر غیر انسانی اور مجرمانہ اقدام انجام دینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔
 
اگرچہ برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ یمن مسئلے پر فریقین کے درمیان نئے سیاسی مذاکرات کی بات کرتا ہے اور اس نئے سیاسی عمل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور حتی ایران کی موجودگی پر زور دیتا نظر آتا ہے اور یمن کے مسئلے کو ایک استعماری سازش اور جارحیت کا نتیجہ قرار نہیں دیتا لیکن دوسری طرف میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے تحت ایران پر یمن میں بدامنی پھیلانے کا الزام عائد کرتا ہے اور یوں ایران سے علاقائی سطح پر مراعات حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے مسئلے میں ایران کی فعال سفارتکاری اور یمن مذاکرات میں روس کو بھی دعوت دینے کا نتیجہ یمن کے خلاف جارح قوتوں اور ان کے حامی مغربی ممالک کی رسوائی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور اسلحہ اور جنگ کی تجارت کرنے والے ممالک اور حکومتیں منظرعام پر آ جائیں گی۔ ایران کی جانب سے شروع ہونے والے اس سیاسی عمل کے نتیجے میں یمن میں انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیاں کھل کر سامنے آئیں گی اور عالمی برادری میں یمن کے قتل عام میں ملوث مجرم حکمرانوں سے آگاہی اور شعور میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایران اور روس مل کر شام کی طرح یمن میں بھی کامیاب سیاسی عمل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جس کا نتیجہ پائیدار امن کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
خبر کا کوڈ : 781697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش