0
Saturday 20 Apr 2019 19:22
کیا آئی ایم ایف کی طرف سے دفاعی بجٹ میں کمی کی شرط کو ماننا اسد عمر کے استعفیٰ کی وجہ بنا؟

اسد عمر کا استعفیٰ، کب کیا کیوں اور کیسے ہوا؟

اسد عمر کا استعفیٰ، کب کیا کیوں اور کیسے ہوا؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

تحریک انصاف کی حکومت کے نویں مہینے میں ہی دھماکہ خیز صورتحال دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عمران خان اس بات کا غیر علانیہ اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ اب تک ان کی حکومت کی کارکردگی ناکامی کی تصویر رہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے سب سے اہم کلیدی کھلاڑی وزیر خزانہ اسد عمر کو گھر بھیج دیا ہے، یہ فیصلہ معاشی میدان میں شکست کا اعتراف ہے۔ اسد عمر کے استعفیٰ کے بعد حفیظ شیخ نے مشیر خزانہ کی ذمہ داریاں سنبھال لی لیں، لیکن اسد عمر کے استعفیٰ کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے، کیا وجوہات تھیں کہ جن کی بنیاد پر اسد عمر کو مستعفیٰ ہونا پڑا۔ جانیں گے اسلام ٹائمز کی اس رپورٹ میں۔ اسد عمر کے استعفیٰ کے بارے میں وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر اسد عمر کے استعفیٰ کی وجہ بنی۔ وزارت خزانہ کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کئی ماہرین کا خیال ہے اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بہت دیر کی جس کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہوا، اسی طرح روپے کی قدر کم کرنے کا فیصلہ بھی وقت پر نہیں ہوا اور جب یہ کم ہوئی تو اس پر تنقید کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ پڑا اور اس کا سارا ملبہ اسد عمر پر گرا۔ کئی سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جو شرائط آئی ایم ایف کر رہا ہے، وہ مکمل طور پر پوری کرنا کسی بھی وزیر کے بس کی بات نہیں، پلاننگ کمیشن کے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے اسد عمر کو آئی ایم ایف کی شرائط پر سخت رویہ دکھانے پر گھر بھیجا گیا۔ پلاننگ کمیشن کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا آئی ایم ایف والے کہہ رہے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے مکمل اطلاعات دیں کہ زراعت، صنعتکاری اور رئیل اسٹیٹ میں چین کس طرح کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس پر سود کیا ہوگا، ادائیگیوں کا کیا طریقہ کار ہوگا اور یہ ادائیگیاں کیسے کی جائیں گی؟ تاہم آئی ایم ایف کا سب سے اہم مطالبہ یہ بھی ہے کہ دفاع کے حوالے سے بجٹ کی بھی تفصیلات دی جائیں اور اس میں کمی کی جائے۔ یہ ایسی شرائط ہیں جن کو کوئی وزیر پورا نہیں کر سکتا تو آنے والے وزیر کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
اسد عمر عمران خان کی کابینہ کے انتہائی اہم کھلاڑی تھے اور ان کو عمومی طور پر ڈپٹی وزیراعظم سمجھا جاتا تھا، وہ ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کرتے جبکہ توانائی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے، معیشت کے حوالے سے ان کے فیصلوں کی چھاپ ہر جگہ موجود تھی۔ وہ شخص جو آئی ایم ایف سے فیصلہ کن مذاکرات کرکے واپس آیا ہو اور اسے آتے ہی گھر بھیج دیا جائے یہ فیصلہ عمران خان کے لئے ایک بڑا چیلنج ابھرتا نظر آرہا ہے، اس وقت حکومت میں فیصلہ سازی کے حوالے سے تلاطم کی سی صورتحال ہے۔ دراڑیں نمایاں ہوکر سامنے آگئی ہیں اور واضح ہوگیا ہے کہ حکمران جماعت شدید دھڑے بندی کا شکار ہے، اسد عمر کی رخصتی کی ایک وجہ یہ دھڑے بندی بھی ہے، جس کا دو روز قبل اظہار ہوا تھا جب اسد عمر نے کابینہ کے اجلاس میں ایمنسٹی اسکیم رکھی تھی تو کابینہ کے اکثر ارکان نے نہ صرف اس کو مسترد کردیا بلکہ اس پر شدید غصے کا بھی اظہار کیا تھا، اس کے بعد وزیراعظم عمران خان شاید اس فیصلے پر دوبارہ پہنچ گئے کہ اسد عمر کو ہر صورت فارغ کردینا چاہیئے کیونکہ وہ وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کا اعتماد کھو بیٹھے تھے۔ خاص طور پر اس کی وجہ ایسٹ ڈیکلریشن اسکیم بنی ہے۔ پارٹی میں مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بظاہر نظر آرہے ہیں۔ ایک دھڑے کو جہانگیر ترین اور دوسرے کی قیادت شاہ محمود قریشی کرتے ہیں، اسد عمر شاہ محمود کے دھڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ جہانگیر ترین اور اسد عمر کی بالکل نہیں بنتی تھی اور بالآخر جہانگیر ترین چھا گئے۔

اسلام آباد سے باخبر صحافی شہباز رانا کے مطابق ایمنسٹی اسکیم فیصلہ کن مرحلہ نہیں تھی کیونکہ وزیراعظم کابینہ میں خود اس کا دفاع کر رہے تھے، اسد عمر کی پوزیشن نیوٹرل تھی، چیئرمین ایف بی آر نے بھی اجلاس میں بار بار یہ بات کہی اس اسکیم کا حکم وزیراعظم کی طرف سے آیا تھا۔ دراصل یہ مسئلہ نومبر دسمبر 2018ء سے چل رہا ہے، جہانگیر ترین نے غالباً جنوری 2019ء میں ایک سنجیدہ کوشش کی تھی اور آئی ایم ایف کے سابق ڈائریکٹر، پاکستانی نژاد برطانوی شہری مسعود احمد کا نام متبادل کے طور پر پیش کیا تھا لیکن ان کی اس کوشش کو راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں جگہ پسند نہیں کیا گیا، اسد عمر کا اسٹائل تھا کہ وہ اتفاق رائے کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے، آج تک جو بھی فیصلے ہوئے ان میں عمران خان، ڈاکٹر عشرت حسین اور عبدالرزاق داؤد شامل تھے، کسی مرحلہ پر جہانگیر ترین بھی شامل ہوتے تھے، وزیراعظم کے ذاتی دوست عارف نقوی اور شجاعت ندیم بھی شامل ہوتے تھے، اس لئے کسی ایک شخص کو آج کی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانا سمجھ سے بالاتر ہے، یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد بھی ایک جماعت نہیں، وفاقی کابینہ میں بھی دھڑے بندی ہے اور یہ اتنی ہے کہ عمران خان کو ایک ہی دن میں کابینہ کے دو اجلاس کرنے پڑتے ہیں، پہلے کابینہ کے باقاعدہ ایجنڈے کو نمٹاتے ہیں اس کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لئے وزراء اور وزیراعظم کی بیٹھک ہوتی ہے تاکہ اندر کی لڑائیاں باہر نہ جائیں۔

ملکی معیشت تو وہیں کی وہیں کھڑی ہے، اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کیا اسد عمر کے جانے کے بعد حکومت کی کارکردگی مزید گرجائے گی یا اوپر اٹھے گی، بنیادی سوال گورننس کا ہے جس میں صرف وزیر خزانہ شامل نہیں تھے۔ پاک چین راہداری پر کیا مسائل ہیں اس حوالے سے خسرو بختیار کی کیا ذمہ داری ہے؟ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا تو اس کی رزاق داود پر کیا ذمہ داری ہے؟ گیس کے کیا مسائل ہیں، غلام سرور خان کی کیا ذمہ داری ہے؟ یہ سارے سوالات اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی کا گورننس کا ماڈل بری طرح پٹ چکا ہے۔ یہ صرف اسد عمر کا مسئلہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کی بقاء کا سوال ہے۔ عمران خان نے فیصلہ کیا ہے وہ اپنی حکومت کو ایک نیا جنم دیں گے، اپنی ٹیم کی ناکامی کے برملا اعتراف کو انہوں نے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس سلسلے میں بے رحمانہ انداز میں اپنی ٹیم کے ان کھلاڑیوں کو نکال دیا ہے جن کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں تھے، عمران خان نے آج اس تنقید کا جواب دیا ہے کہ دراصل وہ تو مخلص ہیں، بڑی محنت کر رہے ہیں، دیانتدار ہیں، دنیا بھی ان کو مانتی ہے لیکن ان کی ٹیم کلک نہیں کر رہی، یہ بیانیہ پورے پاکستان میں سنا جا رہا تھا کہ عمران خان کی ٹیم کام نہیں کر رہی۔ عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈنڈا اٹھائیں گے اور چلائیں گے۔ اپنے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر کو چند گھنٹوں کے نوٹس پر وزارت خزانہ سے فارغ کردیا۔ ذرائع کے مطابق اسد عمر کی وزارت خزانہ سے علیحدگی کے عمل کے ڈانڈے آئی ایم ایف سے مذاکراتی عمل تک جاتے ہیں اور آئندہ چند روز میں ظاہر ہوجائے گا کہ تبدیلی سرکار نے سب سے اہم اور باصلاحیت وزیر خزانہ کو کیسے تبدیل کیا اور وہ کوئی اور وزارت لینے سے گریزاں کیوں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 789576
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش