0
Sunday 28 Apr 2019 08:12

جان بولٹن، نیتن یاہو، بن سلمان اور بن زائد

جان بولٹن، نیتن یاہو، بن سلمان اور بن زائد
اداریہ
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، مورخ اگر جانبدار نہ ہو تو حقائق سامنے آہی جاتے ہیں، ایران کے اسلامی انقلاب کے گذشتہ چالیس سال اپنے اندر عجیب و غریب راز لئے ہوئے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے نوخیز پودے کو صدام ڈکٹیٹر کے ذریعے کچلنے اور مسلنے کے لئے مشرق و مغرب کی طاقتوں نیز علاقے کے عرب ممالک نے مل کر بھرپور تگ و دو کی لیکن صدام کا لشکر اسلامی لشکر کی ایثار و قربانی اور شجاعت و شہامت کے سامنے نہ ٹک سکا۔ پوری دنیا صدام کی پشت پر تھی اور ہر طرح کی مالی، اسلحہ جاتی، سیاسی، سفارتی اور انٹیلی جنس کی مدد و حمایت بھی آٹھ سال کی طویل جنگ میں صدام کو مطلوبہ ہدت تک نہ پہنچا سکی۔ شکست خوردہ صدام نے ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی سبز جھنڈی کے اشارے پر کویت پر جارحیت کی۔ اس جارحیت کے حوالے سے اس نے ایران کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی اور مستقبل میں آٹھ سو کلومیٹر مشترکہ سرحد کا عندیہ بھی دیا، لیکن ایران نے صدام کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ صدام اس جنگ کے نتیجے میں کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور اردن پر قبضے کی منصوبہ بندی کرچکا تھا۔

ایران اگر صدام کی اس پیشکش کو جو ایک خط کی صورت میں اس وقت کے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کو ارسال کی گئی تھی، قبول کر لیتا تو آج یہ ممالک عراق کا حصہ ہوتے اور آل سعود، آل خلیفہ، آل صباح جیسی تمام آلیں ڈکٹیٹر صدام کے بوٹ پالش کر رہی ہوتیں۔ ان ممالک اور ان پر مسلط حکمرانوں کو ایران کا شکر گزار ہونا چاہیئے، نہ کہ ایران دشمن طاقتوں کا ساتھی اور ہم راز۔ ان ممالک کے احسان فراموش حکام آئے دن ایران کے خلاف سازشوں کا جال بنتے رہتے ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایرانو فوبیا کے نام پر ان کو مہنگے ترین ہتھیار بیچ کر اپنی گرتی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے نام لے کر کہا ہے کہ وائٹ ہائوس کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، سعودی ولیعھد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے بن زائد ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ شروع کرانے کے درپے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 791090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش