0
Saturday 28 Sep 2019 16:41

تقریر بہت اچھی تھی مگر ہوگا کیا؟؟؟

تقریر بہت اچھی تھی مگر ہوگا کیا؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں تقریر کی اور جیسی امید کی جا رہی تھی کہ ایک دھواں دھار اور تاریخی تقریر کریں گے، انہوں نے ویسا ہی کیا۔ خان صاحب نے  تقریر میں مغرب کے پیمانے پر رہتے ہوئے ان کے کردار پر سوالات اٹھائے۔ امریکی صدر نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی  کے ساتھ خطاب میں اسلامی دہشتگردی کی جو اصطلاح استعمال کی تھی، اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ افراد کے فعل کو پورے مذہب کی طرف نسبت دینا امریکی صدر کی بدنیتی کی علامت ہے۔ عمران خان نے درست  نشاندہی کی کہ تامل باغیوں کے خودکش حملوں کے وقت ہندو دہشتگردی نہیں کہا گیا اور اب یہ لیبل لگا دیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جاپانیوں نے بڑے پیمانے پر ایسے حملے کیے، جن میں وہ خود کو اڑا لیتے تھے اور دشمن کو شدید نقصان پہنچاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے اس طریقہ کار سے کئی امریکی بیڑے غرق کیے تھے۔

کیا تقاریر سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا؟ یا تقاریر سے دنیا کے مسئلے حل ہوئے ہیں؟ کشمیر کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر بھی ایک شاہکار تقریر تھی۔ زبان و بیان، دلیل اور جوش و خروش کے حوالے سے شاید ہی کسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے فلور پر اس سے بہتر تقریر کی ہو۔ کیا اس سے مسئلہ کشمیر حل ہوگیا؟ کیا اس سے کشمیریوں کی مشکلات میں کمی آگئی؟ حیرت انگیز طور گینز بک آف ریکارڈ میں اقوام متحدہ میں ہونے والی طویل ترین تقریر ہے، جس کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ یہ تقریر آٹھ گھنٹوں پر مشتمل تھی۔ اس تقریر کے دوران کرشنا مینن بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ کچھ دیر علاج معالجے کے بعد واپس لوٹے اور ایک گھنٹہ مزید تقریر کی۔ یہ انڈیا کے سفارتکار تھے اور ان کی تقریر کا موضوع بھی کشمیر ہی تھا۔ اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طویل ترین تقریر کا اعزاز سربراہ مملکت کی حیثیت میں فیڈل کاسترو کو حاصل ہے۔ یہ تقریر کاسترو نے انیس سو ساٹھ میں کی تھی، جس میں ہر مسئلے کی جڑ امریکہ کو قرار دیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان تقاریر کی اہمیت کے باوجود یہ زمینی سطح پر کسی تبدیلی کا باعث نہیں بنتی بلکہ  تبدیلی کے لیے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے

عمران خان صاحب خارجہ محاذ پر پاکستان کی جنگ لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم آپ کی کامیابی کے خواہشمند ہے۔ ایک بات جانے ہم کب سمجھیں گے کہ ریاض، واشنگٹن، تل ابیت اور دلی کے دوست و دشمن مشترکہ ہیں۔ جب تک ہم اپنی خارجہ پالیسی کا ٹیڑھا پن دور نہیں کرتے مسائل حل نہیں ہوگے۔ ہم اتنا عرصہ امریکی کیمپ میں رہے، اس کے نیتجے میں ہمیں کیا ملا؟ یا اب اگر سعودی و امریکی گروپ کا ہی انتخاب کرتے ہیں تو ہمیں کیا ملنے  کی توقع ہے؟ امریکی اور سعودی کبھی انڈین مفاد کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے۔ عملی اقدام تو بڑی بات ہے، کوئی چھوٹا موٹا بیان بھی نہیں دیں گے۔ امریکی گود  سے نکلنا ہوگا آپ کو امریکہ اور مغرب کے انسان دوستی کے نعرے متاثر کرتے ہوں  گے، ہمیں بھی کرتے ہیں، مگر وہ نعرے جیسا کہ آپ نے تقریر میں کہا امریکیوں، صیہونیوں اور یورپیوں کے لیے ہیں۔ دنیا کے باقی انسان اس میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ وہ ابھی تک اس درجہ تک نہیں پہنچے، جہاں انہیں مکمل انسانی حقوق حاصل ہوسکیں، ورنہ اسی لاکھ لوگوں کو قید کرنے پر دنیا کو  شدید ردعمل دنیا چاہیئے تھا۔

آج کی دنیا مفادات کی دنیا ہے، جہاں مفاد زیادہ نظر آتا ہے، دنیا اسی طرف پلٹ جاتی ہے۔ نظریات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کشمیر میں سب کو ظلم نظر آرہا ہے، مگر کوئی نہیں بول رہا اور کوئی بولے گا بھی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ  انڈیا کے ساتھ دنیا کے مفادات وابستہ ہیں، جو انسانی حقوق کی بحالی اور اس ظلم کے خاتمے کے مطالبے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے، جس کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ یاد رکھیں آج طاقتور کی آواز ہے، اس لیے طاقت کی بنیاد پر پکاریں گے تو دنیا آپ کی بات سنیں گی۔ نظریہ سن لیں گے اور تالیاں بھی خوب بجا لیں گے، مگر اس کے نتیجے میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ دنیا کو درست آگاہ کر دیا کہ جنگ روایتی نہیں ہوگی، اگرچہ یہ بیان بیک فائر کرسکتا ہے، مگر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہماری شہ رگ کو کاٹنے کی کوشش کی جائے گی تو ہم پوری قوت سے لڑیں گے اور ہر اس ذریعے کو استعمال کریں گے، جس سے ہم اپنے مفاد ات کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

آپ نے درست فیصلہ کیا کہ ہر قسم کی نجی ملیشا کو پاکستان میں بین کر دیا گیا ہے اور اب کوئی ایسا گروپ موجود نہیں ہے۔ یہ پالیسی ٹھیک ہے، ان پرائیویٹ گروپوں نے وطن عزیز کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ستر ہزار پاکستانیوں کی شہادت کے ذمہ دار باہر کے شاطر لوگوں کے یہی ایجنٹ تھے، جنہوں نے ہماری افواج پر حملے کیے اور ہمارے نہتے شہریوں کا قتل عام کیا۔ آخر میں محترم جناب عمران خان صاحب آپ جن سے پاکستان اور امت کے مسائل کا حل لینے نکلے ہیں، یہی تو وجہ فساد ہیں اور یہی تو اس بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان میں مجاہدین کا معاملہ ہو یا شام و عراق میں داعش کی انسان دشمنی سب کے تانے بانے انہی سے ملتے ہیں اور یمن میں یہ خود براہ راست قتل عام میں ملوث ہیں۔ شائد اسی جیسی صورتحال کے لیے میر نے کہا تھا:
میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
خبر کا کوڈ : 818932
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش