0
Wednesday 2 Oct 2019 16:37

کیا محمد بن سلمان بادشاہت کے قریب پہنچ گئے ہیں؟

کیا محمد بن سلمان بادشاہت کے قریب پہنچ گئے ہیں؟
تحریر: ثاقب اکبر
 
سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے قابل اعتماد چیف سیکورٹی آفیسر عبدالعزیز الفغم کے قتل کو بعض لوگ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ مکة المکرمہ کی پولیس نے اتوار کے روز (29ستمبر 2019ء کو) میجر جنرل عبدالعزیز الفغم کے قتل کے واقعے کی تفصیل جاری کی ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (ایس پی اے) نے مکہ ریجن پولیس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ روز( ہفتہ 28ستمبر کو) شاہی باڈی گارڈ میجر جنرل عبدالغزیز بن بداح الفغم جدہ کی ایک کالونی میں اپنے دوست ترکی بن عبدالعزیز السبتی سے ملنے گئے تھے۔ اس دوران میں دونوں کے مشترکہ دوست ممدوح بن مشعل آل علی بھی آ گئے۔ باتوں باتوں میں کسی معاملے پر میجر جنرل عبدالعزیز الفغم اور ممدوح آل علی کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی، جس کے بعد ممدوح وہاں سے غصے کی حالت میں چلا گیا۔

پھر وہ کچھ دیرکے بعد اسلحہ لے کر واپس آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے میجر جنرل عبدالعزیز الفغم پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ فائرنگ کی زد میں وہاں موجود دو اور افراد بھی آ گئے۔ ترجمان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے تو ملزم نے خود کو اس مکان کے اندر بند کر لیا اور چھپ کر پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے اس سے خود کو حکام کے حوالے کرنے کی متعدد اپیلیں کیں۔ جب اس نے ان اپیلوں پر کان نہیں دھرے تو پھر حکام کو مناسب کارروائی کرنا پڑی۔ حکام کی کارروائی میں ممدوح آل علی بھی ہلاک ہو گیا۔ اس سرکاری بیان کو ملک کے اندر اور باہر تجزیہ کار عام طور پر شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور قابل ملاحظہ ہیں۔ 
 
لندن میں مقیم سعودی مخالف معروف شخصیت محمد المسعری نے 5 ماہ قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں محمد بن سلمان کے ہاتھوں اسی شخص کے قتل کا احتمال ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اے عبدالعزیز الفغم! محمد بن سلمان عنقریب تم اور تمھارے گروہ کا سر قلم کر دے گا اور تمھاری جگہ بلیک واٹر کے ساتھ منسلک کولمبیا کے باشندے بھرتی کر لے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے داخلی امور پر نظر رکھنے والے بعض افراد پہلے سے الفغم کے قتل کا امکان ظاہر کررہے تھے۔ اس سلسلے میں مجتہد نام کے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر شائع ہونے والی خبریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ مجتہد، کو شاہی خاندان کے اندر کے رازوں کو جاننے والے کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ وہ پہلے بھی کئی رازوں سے پردہ اٹھا چکا ہے۔ مجتہد کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے محافظ میجر جنرل عبدالعزیز الفغم کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گیا ہے۔ 
 
مجتہد نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل الفغم قتل کے موقع پر شاہی محل میں موجود تھے۔ وہ سعودی شاہی خاندان کے وفادار کی شہرت رکھتے تھے، البتہ بن سلمان ان پر خاص ذاتی وفادار کی حیثیت سے اعتماد نہیں کرتے تھے اور کئی مرتبہ کہہ چکے تھے وہ انھیں برکنار کرنا چاہتے ہیں۔ مجتہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ الفغم اور ممدوح آل علی دونوں کو شاہی محل میں قتل کیا گیا ہے کیونکہ دونوں نے بن سلمان کی ایک خواہش پر عمل نہیں کیا تھا اس لیے انھیں راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ تحریر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بن سلمان نے الفغم خاندان سے کہا ہے کہ وہ اس کے قتل کے بارے میں جاری کردہ بیان کی تائید کریں۔ الفغم کی شاہ سلمان سے قربت کا یہ عالم تھا کہ وہ بادشاہ کا عصا پکڑتے اور انھیں جوتے تک پہناتے۔ شاہی محل کے خاص اس حصے میں جو شاہ سلمان سے مختص ہے اور جس میں شاہ سلمان آرام کرتے ہیں، اس میں داخلے کا امکان صرف دو افراد کے لیے تھا ایک خود شاہ سلمان اور دوسرے جنرل الفغم۔

انھیں بادشاہ سے انتہا درجے کی قربت کی وجہ سے بادشاہ کا سایہ کہا جاتا تھا۔ حال ہی میں انھیں بہترین باڈی گارڈ کا ایوارڈ بھی ورلڈ اکیڈمی آرگنائزیشن کی طرف سے عطا کیا گیا تھا۔ ایک سعودی ایکٹویسٹ محمد العتیبی کے مطابق مقتول کے رشتے داروں میں سے کسی نے اسے خبر دی ہے کہ شاہی محل میں شاہ سلمان کے خلاف ایک حملے کو روکتے ہوئے الفغم کو قتل کیا گیا ہے۔ مختلف خبروں میں سے ایک خبر ایک سعودی اخباری رپورٹر علی الاحمد کی بھی ہے، جنھو ںنے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ الفغم کی موت گولی لگنے سے ہو سکتی ہے، انھوں نے یہ بھی لکھا کہ الفغم کو چند روز پہلے معزول کیا جا چکا تھا۔ مختلف خبروں اور بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاہ سلمان الفغم پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے لیکن محمد بن سلمان انھیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے، وہ انھیں معزول کرنا چاہتے تھے۔

شاید انھوں نے اپنے اختیارات سے انھیں اپنی طرف سے معزول کر دیا ہو، لیکن شاہ سلمان نے ان کے فیصلے سے موافقت نہ کی ہو۔ اب جب کہ قاتل و مقتول دونوں مقتول ہو چکے ہیں تو اسے ایک اندھا قتل ہی قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ تک میڈیا کو کسی قسم کی رسائی کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا آزادانہ ذرائع سے معاملے کی تحقیقات ممکن نہیں ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق عبدالعزیز الفغم کے قتل کے بعد بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں، کیونکہ عبدالعزیز الفغم کے پاس سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے متعلق بہت سی اندرونی اطلاعات تھیں اور کہا جارہا ہے کہ الفغم کے قتل میںسعودی ولی عہد بن سلمان کا ہاتھ ہے۔ اس لیے ایک ایسے فرد کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے کہ جس کے پاس شاہی دربار کی اطلاعات کا بے شمار خزانہ تھا۔ اس سے پہلے یہ اطلاعات آتی رہی ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے کزنز اور شاہی خاندان کے اہم افراد کے مابین شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔

اسی طرح شاہی خاندان کے بہت سے افراد یمن جنگ کے فیصلے کے بھی خلاف ہیں، جس کی وجہ سے سعودی عرب کو شدید بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت یمن کی جنگ سعودی اقتصادیات کی شہ رگ تک آ پہنچی ہے۔ ممکن ہے کہ اس صورت حال سے خود شاہ سلمان بھی نالاں ہوں۔ قبل ازیں ولی عہد کو معزول کرکے نائب ولی عہد محمد بن سلمان کو اس کی جگہ تعینات کرنے کی وجہ سے بھی شاہی خاندان میں اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔ شاہی محل کے اندر گولیاں چلنے اور آگ لگنے کے واقعات بھی نیوز چینلز کی شہ سرخیوں میں نشر ہو چکے ہیں۔ اس سارے پس منظر کے ساتھ ساتھ محمد بن سلمان کو یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ کہیں شاہ سلمان اپنے فیصلے کو تبدیل نہ کردیں اور کسی اور شہزادے کو پھر سے ولی عہد نہ بنا دیں۔ 
 
علاوہ ازیں اقتدار پر اپنے پنجوں کو مضبوط اور محفوظ کرنے کے لیے جلد از جلد تخت پر پہنچنے کی خواہش شاہی محلات میں ہمیشہ رہی ہے، خود ہمارے برصغیر میں اکبر بادشاہ کو راستے سے ہٹا کر اس کا بیٹا جہانگیر کارروائی کا فیصلہ کر چکا تھا، لیکن قدرت نے اس کا راستہ ہموار کردیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے باپ شاہ جہاں کو معزول کرکے اور اس کی آنکھیں نکال کر زندان کے حوالے کر دیا تھا اور اپنے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس نے بڑے بھائی داراشکوہ کا سر کاٹ کر اسے طشت میں رکھ کر اپنے باپ کے پاس بھجوایا تھا۔ اسی لیے عربوں کا محاورہ ہے جو آج عربوں پر فٹ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے:
الملک عقیم
حکومت بانجھ ہوتی ہے۔ حکومت کا کوئی مائی باپ نہیں ہوتا، اقتدار کی ہوس کسی کو نہیں دیکھتی لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ہوس پرست عالمگیر بھی ہو جائے۔ 
خبر کا کوڈ : 819668
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش