1
0
Thursday 16 Jan 2020 17:00

دیسی لبرل کا دوہرا معیار

دیسی لبرل کا دوہرا معیار
تحریر: رسول میر

ہمارے ہاں جہاں دیسی لبرل کی بہتاب ہے، وہاں بےعمل دینداروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ امام خمینی نے اسلام ناب محمدی کے بالمقابل اسلام امریکائی و اسلام آبائی کے نام سے اسلام کی دو منحرف اقسام کا بھی ذکر کیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اس تقسیم کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔ اگرچہ کلمہ گو ہیں اور پکے مسلمان بھی، لیکن ان کے افکار، اعمال، ترجیحات، مسائل اور وسائل سبھی باطل قوتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ امام خمینی کے بقول ایسے افراد کا اسلام ناب محمدی سے کوئی تعلق نہیں، یہ لوگ اسلام امریکائی کے پیروکار ہیں۔ ہم اپنی مقامی اصطلاح میں ان کو دیسی لبرلز کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ حقیقی لبرلزم سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دیسی لبرلزم درحقیقت اسلام ہراسی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، اسلام کی غلط تشریح اور حاملان اسلام کے ظاہری کرتوتوں کی وجہ سے مایوس افراد جب خود کو تلاش حقیقت کی راہ پہ ڈالنے کی بجائے بغاوت کی راہ اپنا لیتے ہیں تو ایک سچا مسلمان دیسی لبرل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
 
دیسی لبرلز کی چند علامتوں کا ذکر کرنا چاہونگا، تاکہ ہماری نئی نسل گمراہی سے بچ جائے، معیار میں بتاتا ہوں، مصداق آپ خود تلاش کریں۔ دیسی لبرلز مذہب سے نالاں، مغرب سے مرعوب اور احساس کمتری کا شکار طبقہ ہے، ان کے بقول دین، مذہب اور شرعی احکامات نے ہمیں پسماندہ اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھا ہوا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے آفاقی اور کامل نظام حیات کو صرف چند عبادات تک محدود سمجھنے اور ہماری بے عملی نے ہمیں پیچھے رکھا ہوا ہے، اس میں مذہب کا کوئی قصور نہیں۔ ایک انتہائی دلچسپ سوال ہے کہ دیسی لبرلز ان ساری چیزوں سے بیگانہ ہوکر بھی ترقی کیوں نہیں کر پا رہا؟؟ کیا جدوجہد کے بغیر صرف داڑھی مونڈ کر روشن خیال، لنڈے کی پینٹ پہن کر ماڈرن اور دین کا مذاق اڑا کر اپنے آپ کو لبرل شو کرنے سے معاشرہ ترقی کرے گا۔؟

ان کے نزدیک ترقی کا راز مغرب پرستی میں مضمر ہے۔ امریکہ کی ایجادات، سائنس، ٹکنالوجی، تہذیب، تمدن، تیز ترین پیشرفت اور ناقابل تسخیر قوت ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جبکہ خود ایسے ممی ڈیڈی مزاج ہوتے ہیں کہ محنت، مشقت اور جفاکشی ان کی سرشت میں ہی نہیں ہوتی اور نرم گداز صوفوں اور ایرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر انہی ناقابل تسخیر سمجھنے والی استعماری اور استحصالی طاقتوں سے نبرد آزما مجاہدین اور مقاومتی بلاک کے بارے میں بے سروپا تجزیئے کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی ان کے سامنے اپنی تحقیق، جستجو، ایجادات اور ادب کی بات کریں تو ان کی شکل دیکھنے والی ہوتی ہے۔ کھینچ کھانچ کر سٹیفن ہاکنک، جان ڈیوی، کانٹ، نٹشے اور شکسپیر کا ذکر چھیڑ کر سمجھتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری ادا ہوگئی ہے۔ ایجادات کو صرف مغرب کی میراث سمجھ کر آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر علمائے کرام پہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

اپنی تہذیب و ثقافت کی رٹ بہت لگاتے ہیں، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے تو فوراً ہالی ود و بالی وڈ کے ساز پہ خسروں کی طرح ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے اسلاف سے بے خبر ہی نہیں بلکہ ان سے انہیں بہت چڑھ بھی ہے۔ لباس، رہن سہن اور بودباش سے مغرب کی اوباشی چھلک رہی ہوتی ہے۔ بات بلتی ثقافت کی کرتے ہیں، مگر بلتی میں دو جملے ڈھنگ سے بول نہیں سکتے۔ غالب کو تڑپا دینے والی اردو میں دو چار انگلش کے الفاظ زبردستی شامل کرکے دوسروں پر فوقیت جتانے اور اپنے احساس کمتری کا علاج کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو ثقافت کے نام پہ اچھل کود اور نیچ حرکتوں سے روکے تو فوراً دقیانوسی اور قدامت پرست ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔

بات انسانیت کی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں بہتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کے لہو سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہاں اگر خدانخواستہ مغرب میں کہیں ٹانگہ بھی الٹ جائے تو موم بتی لیکر کر چوراہوں پر نکل پڑتے ہیں۔ مغرب کے ظلم و استبداد اور انتہاء پسندانہ پالیسیوں پر ساکت و جامد کچھوے کی طرح سر ڈھانپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب کسی مسلمان یا اسلامی ریاست سے معمولی خطا بھی غلطی سے سرزد ہو جائے تو گردن سیدھی کرکے بلوں سے نکل آتے ہیں اور زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن کو اپنے آباء و اجداد کی قبور کی شناخت نہیں ہوتی، ایسے افراد فقط ڈانس کے جواز کے خاطر بلتستان میں اسلام کے آٹھ سو سالہ عہد زرین کو پاؤں تلے روند کر بدھ مت کی ثقافت کے دوبارہ احیاء کی بات کرتے ہیں۔ یہ جو سینکڑوں سالوں سے اسلامی تہذیب و ثقافت بلتستان میں رائج ہے، پتہ نہیں اس میں کس چیز کی کمی ہے۔ یہ ثقافت سے دلچسپی نہیں، اسلام سے دشمنی ہے۔

اپنی نانی، دادی، ماں، بہن اور بیوی سے تو بہت نالاں رہتے ہیں، لیکن آزادی نسواں کا درد ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور نت نئے پروگراموں اور ایونٹس کے ذریعے خواتین سے پردہ، عفت اور حیاء کو چھینے کے درپے رہتے ہیں، تاکہ اپنے آقاؤں سے داد سمیٹ سکیں۔ اگر ان کی شہوت رانی کے راہ میں کوئی رکاوٹ بنے تو اس کو انتہا پسند اور ملا ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کلمہ گو مسلمان، نمازی اور ماتمی ہونے کے باوجود اغیار کی نگاہوں میں منظور نظر بنے کے لئے یا پھر اپنے کاروبار، اخبار، تنظیم اور شخصیت کو یکساں مقبول اور متفق الیہ بنانے کے چکر میں اپنے ہی مسلک، مذہب اور وطن کا مذاق اڑا کر، بےتکے اعتراضات اور شبہات پیدا کرکے دوغلے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بلآخر دیسی لبرلز کی دوغلاپنی اور اعتراضات کے تیر و تبر کا شکار بھی وہی انقلابی طبقے بنتے ہیں، جو بغیر کسی مصلحت پسندی کے اپنا دو ٹوک موقف رکھتے ہیں اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم سچے مسلمان، حقیقی ولائی اور عصر حاضر میں ولایت فقیہ کے سچے فدائی ہیں۔ اسی وجہ سے انقلابی ہمیشہ ظالم حکومت، دیسی لبرلز اور دین آبائی کے پیروکاروں کے  شانے پہ رہتے ہیں۔ بحث لمبی ہوگئی، مقصد صرف یہ ہے کہ آپ دیسی لبرلز ہوں یا پھر مصلحت پسند دیندار، اگر آپ کو حقیقی اسلام ناب کی سمجھ نہیں ہے تو جستجو اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر آپ کو اسلامی اقدار اور حدود و قیود پسند نہیں تو پھر تھوڑی جرات کا مظاہرہ کرکے اپنی لادینیت کا کھل کر اعلان کریں اور آزاد فضا میں تحقیق شروع کر دیں۔

پھر یقین جانئے اپنی آزاد تحقیقات اور جستجو سے آپ کو جس چیز کی سمجھ آئے، بھلے وہ اسلام کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، وہ اس اسلام سے کئی درجہ افضل ہے، جسے آپ نے شک و شکوک اور بددلی کے ساتھ ابھی تک اختیار کیا ہوا ہے۔ انسانی سماج کا مسئلہ یہ نہیں کہ آپ حتماً مسلمان ہوں، نہ ہی اسلام ایسا چاہتا ہے "لا اکراہ فی الدین" اور عقائد میں تقلید کی حرمت کا راز یہی ہے کہ انسان دوغلے پن کا شکار نہ رہے، یہی دوغلا پن ہے جو انسانی سماج کو دیمک کی طرح چاٹ دیتا ہے اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ اپنا فلسفہ جھاڑنے کی ضرورت نہیں اور اگر لبرل ہیں تو پھر آپ آزاد ہیں، چاہیں تو قرآن و سنت پر عمل کریں یا پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر کی زندگی گزاریں۔
خبر کا کوڈ : 838872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
کوئی کام کی بات نہیں لکھی ہے جناب نے، کہیں سے دیسی لبرلز کی اصطلاح اٹھائی ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہاتھ آیا لکھنے کو۔
ہماری پیشکش