0
Sunday 8 Mar 2020 18:21

عورت مارچ یا سیڈومیسوکزم، پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خطرہ (1)

عورت مارچ یا سیڈومیسوکزم، پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خطرہ (1)
تحقیق و تحریر: مجتبیٰ ہمدانی

چونکہ علمائے ملت کی طرف سے بھی حکم آ گیا ہے کہ امر بالمعروف کے باب سے بھی اس غلیظ مارچ کے خلاف قیام کیا جائے، تو قلم کو جنبش دینے کا ارادہ کیا۔ اس مقالے میں میرے مخاطب دو طرح کے طبقات ہیں اور دونوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ایک میرے ہم فکر اسلامی و الہی نظریے والے افراد اور دوسرے مادہ پرست (منکرین عالم غیب) پاکستانی۔ پاکستان میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں رائے دینے میں ہماری روش تحقیقی نہیں ہوتی بلکہ جذباتی، سنی سنائی یا خود خیالی پر مبنی باتوں کا اظہار ہوتا ہے جس کے باعث قوم کسی مسئلہ میں سنجیدگی اختیار ہی نہیں کرتی۔ جبکہ اس سنی سنائی میں سب سے زیادہ نامعقول کردار الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھا دیکھی تقلیداً کسی کی مخالفت یا پھر کسی موافقت میں اتر جاتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر معاملے کو علمی اور محققانہ بنیادوں پر پرکھا جائے اور ہدف ریٹنگز بڑھانا نہ ہو بلکہ عوام کو آگاہ کرنا ہو تو کثیر طبقے کو متاثر کر کے انکی رائے کو ایک خاص سنجیدہ پیمانے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کوشش ہے، "عورت مارچ" کے معاملے کو جڑ سے پکڑا جائے۔ اسلیے اس مارچ کی ساخت، انداز و نعروں کو گہرائی میں اتر کر جانچا اور یوں جو کچھ تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہوا وہ قارئین کے لیے حاضر خدمت ہے۔ میرے مخاطبین میں ایک طبقہ الہی جہان بینی کے نظریے کے ساتھ زندگی گزارتے افراد ہیں یعنی جن کا الٰہی دین  پر ایمان ہے اور وہ اس الہیٰ حکمنامے پر ایمان کے ساتھ اپنے روز و شب بسر کرتے ہیں، اگرچیکہ ممکن ہے کہ وہ عمل میں کمزور ہوں مگر قلبی احساسات و ذہنی افکار میں الہی نظریہ و تھیوری سے متاثر ہوتے ہیں۔  مثال کے طور پر ممکن ہے ایک شخص باقاعدگی سے نماز نہ پڑھتا ہوں لیکن وہ خدا کے وجود کا منکر بھی نہیں ہوتا تو ایسا شخص گناہ و بے عملی کے باوجود بھی الہی جہاں بینیوں کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ وہ افراد ہیں جو ذہن و قلب سے کسی بھی الہی نظریے و حکمنامے کو قبول نہیں کرتے اور اپنی مرضی، خواہشات و مادی انسانی ضروریات کے تحت اپنی فکر، نظریات، قلبی احساسات اور عملی زندگی کو ترتیب دیتے ہیں۔

انکا اکثر و بیشتر اس دنیا کے بعد کی زندگی اور عالم غیب پر اعتقاد بھی نہیں ہوتا اور وہ اسی مادی فکر کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے قبر تک چلے جاتے ہیں لیکن اس میٹرلسٹک آئیڈیالوجی کے باوجود وہ ضروری فطری اقدار اور فنکشنل ویلیوز کو قبول کرتے ہیں جیسے حقوق بشریت، احترام آدمیت، بچوں پر شفقت، عورت کا احترام، جانوروں و حیاتیات سے الفت، آلودگی سے نفرت، معاشرتی خبائث جیسے جھوٹ و خیانت سے نفرت، معاشرتی حیا و لحاظ، مزدوروں کے استحصال کی مخالفت، بچوں پر جنسی تشدد کی مزاحمت، معاشرتی نظم و ضبط کی پرواہ، رول آف لاء اور قانون کی حکمرانی کا قائل ہونا، دوسروں کو تکلیفات سے بچانا وغیرہ وغیرہ۔ ان دونوں اساسی  سکول آف تھاٹس "الہی و مادی" (بشمول ذیلی شاخیں) کے علاوہ بھی دنیا میں ایک اساسی مکتب فکر پایا جاتا جو مادی لبرلزم کی فطری، انسانی اور فنکشنل حدود کا بھی انکار کرتا ہے۔ بعض ماہرین عمرانیات انکو libertinism اور انکے ماننے والوں کو libertine کہتے ہیں۔

یہ افراد کلاسیکل لبرلز (liberalism) سے بھی جدا ہیں اور مادر پدر آزادی سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں حتی فطری حیاتیاتی قوانین کا بھی کچھ جگہوں پر انکار کر جاتے ہیں۔ اس مکتب فکر کی ایک ذیلی متشدد شاخ کو سیڈومیسوکزم sadomasochism سے تعبیر کیا جاتا ہے جسکا بانی مارکیس ڈیسادے Marquis de Sade ہے۔ یہ دو سو سال قبل گزرا ہوا وہ شخص ہے جس نے anti-God تصورات کی بنیاد رکھی اور آدمیت حیوانی animalistic human nature کو فطرت انسان کے طور پر متعارف کروایا بلکہ زیادہ بہتر انداز میں کہا جائے تو وحشی پن کو حقیقی انسانی فطرت سے تعبیر کیا۔ اس کے بہت سارے سیاہ کاموں (جسکو سیڈومیسوکزم کے سنہرے مکتبی اصول کہا جاتا ہے) میں سے ایک تحریک اسقاط حمل abortion ہے جسکو آج یورپ میں pro abortion یا pro choice موومنٹ کہا جاتا ہے اور اس کی مخالفت میں چلنے والی تحریک  پرولائف موؤمنٹ کہلاتی ہے۔

مارکیس ڈیسادے کو اس کارنامے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک اسرائیلی آرگنائزیشن hope of Israel اپنی ویب سائٹ پر لکھتی ہے۔ It's the time for the pro-abortion movement to recognize its philosophical godfather and give him the credit he deserves ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر برین کلوویس (عیسائی) اپنے ایک مقالے، "Should Women Be Able to Control Their Bodies?" میں تحریر کرتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے "عورت کا جسم عورت کی مرضی" کے نظریے پر دلائل دیے وہ ڈیسادے جیسا libertine تھا۔ اس لیے اگر اے پاکستانیوں یہ نعرہ "میرا جسم میری مرضی" جو بظاہر دیکھنے میں ایک نعرہ مگر دراصل یہ ایک انسانیت سوز پلید سکول آف تھاٹ سیڈومیسوکزم کے مکتبی و نظریاتی بیج بونے کے لیے پاک سرزمین کی فضاؤں میں بلند کیا گیا ہے۔ اگلی اقساط میں تفصیل سے اس تحقیق کو درج کریں گے جہاں سے اپکو معلوم ہو گا کہ اس "تحریک میرا جسم میری مرضی" اور عورت مارچ کے تانے بانے بین الاقوامی سطح پر کن شیطانی قوتوں سے ملتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 849170
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش