0
Saturday 9 May 2020 02:52

فورتھ شیڈول سے ہزاروں افراد کا انخلا اور امن کی خواہش

فورتھ شیڈول سے ہزاروں افراد کا انخلا اور امن کی خواہش
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
فورتھ شیڈول کا قانون پاکستان جیسے ملک میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس قانون کو ممنوعہ فہرست کے نام سے بھی تشبہہ دی جاسکتی ہے، ایک ایسی فہرست جس میں ریاست اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایسے افراد کو ڈال سکتی ہے، جن پر دہشت گردی یا فرقہ واریت کا شک ہوتا ہے۔ جب حکومت کو کسی شخص کے بارے میں کسی دہشت گرد یا فرقہ پرست تنظیم سے تعلق کی معلومات ملتی ہیں تو ایسے مشکوک شخص کے نام کو شیڈول فور میں رکھا جاتا ہے۔ Section 11EE of the ATA 1997 اس قانون کی تشریح کرتا ہے۔ پاکستان میں فورتھ شیڈول کی فہرست میں موجود افراد کی اکثریت کا تعلق یا تو کالعدم دہشتگرد جماعتوں سے ہے یا پھر فرقہ پرست تنظیموں سے ہوتا ہے۔ تاہم اس قانون کا استعمال بعض اوقات سیاسی بنیادوں پر بھی کیا گیا اور بعض اوقات بلینس پالیسی کے تحت بھی اس ممنوعہ فہرست کو طویل کیا گیا۔ شیڈول فور میں شامل شخص پر ریاست کی جانب سے مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوتی ہیں، جن پر عملدرآمد کرانا متعلقہ پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قانون کے مطابق فورتھ شیڈول میں شامل شخص دیگر عام شہریوں کی طرح آزاد زندگی نہیں گزار سکتا۔ تاہم ان پابندیوں میں حالات کے تناظر میں نرمی یا سختی کی جاتی ہے۔

شیڈول فور میں شامل شخص بغیر اجازت اپنے ضلع سے باہر نہیں جاسکتا، شناختی کارڈ اور بنک اکاونٹس کا منجمند ہونا، کسی بھی قسم کی سیاسی یا مذہبی سرگرمیوں اور سرکاری نوکری پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ بعض کیسز میں پاسپورٹ یا تو ضبط کر لیا جاتا ہے یا پھر بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ پاکستان جو عرصہ دراز سے دہشتگردی اور فرقہ واریت کا شکار رہا ہے، یہاں اس قانون پر درست طریقہ سے عملدرآمد کروا کر امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جاسکتا تھا، تاہم اس قانون کا ملکی سیاسی حالات اور بعض اوقات بیرونی دباو کے نتیجے میں غلط استعمال کیا گیا اور کئی ایسی معزز اور مذہبی شخصیات کے دامن پر بھی شیڈول فور کا دھبہ لگا، جن کا کردار تخریب کی بجائے اتحاد بین المسلمین اور رواداری کو فروغ دینے میں واضح رہا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردوں اور فرقہ پرستوں کیساتھ ساتھ شیڈول فور کا قانون متعصبانہ اور سیاسی مفادات کی خاطر ملت تشیع کیخلاف انتہائی غلط طریقہ سے استعمال کیا گیا۔ کئی جید شیعہ علمائے کرام، وکلاء، پڑھے لکھے نوجوانوں، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافیوں، کاروباری حضرات، سماجی و سیاسی کارکنان کو بے جا طور پر فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔

گذشتہ دو سال کے دوران حکومت نے ساڑھے تین 3 ہزار سے زائد افراد کو اس ممنوعہ فہرست سے نکالا ہے۔ 2018ء میں فناشل ایکشن ٹاسک فورس کو حکومت کی طرف سے جو فہرست پیش کی گئی تھی، اس میں شیڈول فور میں شامل افراد کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ تھی، لیکن گذشتہ تقریباً دو برسوں کے دوران اس فہرست میں سے ساڑھے 3 ہزار سے زیادہ افراد کو نکال دیا گیا۔ دہشتگردی سے نمٹنے کے قومی ادارے نیکٹا کی ویب سائٹ پر ان افراد کی تعداد 3608 ہے، جنھیں ابھی تک فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فورتھ شیڈول سے نکالے جانیوالے سب سے زیادہ افراد کا تعلق اسی صوبے سے ہے اور یہ تعداد 1700 سے زیادہ ہے۔ جن افراد کے نام انسداد دہشتگردی کے فورتھ شیڈول سے نکالے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ کا تعلق کالعدم تنظیموں سے رہا ہے اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ان کی سرگرمیوں کے بارے میں متعلقہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دی جانیوالی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے نام اس لسٹ سے نکالے جاتے ہیں۔

اہلکار کے مطابق جن افراد کے نام فورتھ شیڈول سے نکالے گئے ہیں، ان میں ایسے افراد کی قابل ذکر تعداد بھی شامل ہے، جن کے نام گذشتہ دس برسوں سے اس فہرست میں شامل تھے اور ان کے نام نکالنے کے حوالے سے ماضی میں کوئی فیصلے نہیں لیے گئے تھے۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے اہلکار کے مطابق جن افراد کے نام شیڈول فور کی فہرست سے نکالے گئے ہیں، ان کے بارے میں متعلقہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بنائی گئی کمیٹیوں کی طرف سے دی گئی سفارشات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹ کے حکم پر بھی متعدد افراد کے نام فورتھ شیڈول لسٹ سے نکالے گئے ہیں۔ چونکہ کالعدم تنظیموں کیخلاف مؤثر کارروائی کی وجہ سے ان تنظیموں سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، اس لیے ضلعی کمیٹیوں نے ان افراد کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے پر غور کیا گیا۔ اہلکار کے مطابق جن افراد کے نام اس فہرست سے نکالے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق جنوبی پنجاب کے اضلاع سے ہے اور ان اضلاع میں بہاولپور اور بہاولنگر کے علاوہ بھکر اور میلسی بھی شامل ہیں، یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

یہاں تشویشناک امر یہ ہے کہ شیڈول فور سے نکالے گئے افراد کی بڑی تعداد کالعدم جماعتوں سے تعلق رکھنے والی ہے، گو کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے، تاہم ملک دشمن سرگرمیوں، دہشتگردی اور فرقہ پرستی میں ملوث رہنے والے افراد کے حوالے سے حکومت کو چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام بنانا ہوگا، جبکہ دوسری جانب ایسے افراد و شخصیات جن کو ماضی میں محض تعصب، سیاسی بنیادوں یا بیلنس پالیسی کے تحت شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے، ان کے حوالے سے فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض اوقات ریاست کی جانب سے بے جا ظلم و زیادتی پرامن اور مہذب شہریوں کو بھی غلط راستہ پر چلنے کی مجبور کرسکتی ہے۔ پاکستان کسی صورت مزید دہشتگردی یا فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سماج و ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کیساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیئے، اگر عمران خان حکومت کی خواہش پاکستان کو پرامن و ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو شرپسند اور پرامن شہریوں میں تمیز کرنا ہوگی، اور انتہائی محتاط رویہ اپنانا ہوگا، کیونکہ اس حوالے سے کی گئی کوئی چھوٹی سے کوتاہی ملک کو ایک مرتبہ پھر آگ و خون کے دریا میں دھکیل سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 861514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش