0
Wednesday 22 Jul 2020 11:21

کیا انڈیا خطے کا اسرائیل بن رہا ہے؟َ

کیا انڈیا خطے کا اسرائیل بن رہا ہے؟َ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

انڈیا کا ہر پڑوسی ملک سے کسی نہ کسی سطح پر سرحدی تنازع چل رہا ہے۔ کہیں یہ تنازع سلیپنگ موڈ میں ہے اور بظاہر حالات پر سکون نظر آرہے ہیں اور کہیں کہیں یہ تنازع بڑی شدت کے ساتھ دنیا کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ جنوبی ایشیاء کا یہ خطہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کو اپنے سینے پر جگہ دیئے ہوئے ہے۔ یہ خطہ متنوع مذاہب، کثیر النسلی، زبانوں کی کثرت اور اپنی رواداری کے لیے مشہور رہا ہے۔ اب یوں لگ رہا ہے کہ یہاں کی قیادت پر اسرائیل کی فاشسٹ رجیم کے اثرات ہو رہے ہیں اور اب یہ زمین نگلنے والی بلا بن رہا ہے، جو ہر طرف اندھا دھند اپنی قوت کا استعمال کر رہی ہے، کچھ بھی میرے پیٹ میں داخل ہو جائے اور میں اسے ہڑپ کر جاوں۔ جن پر قبضہ کر رکھا ہے، اسے ڈکارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیر کو ہی لے لیں، پہلے اس پر قبضہ کیا گیا، انتہائی مکاری سے اس کی شناخت کو تسلیم کیا گیا، مگر یہ پالیسی رکھی گئی کہ جب قوت مل جائے گی تو ان کی شناخت اور اختیار کو بھی ختم کر دیا جائے گا، اب دیکھیے یہی ہوا۔ یہاں بالکل اسرائیلی طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔

لگ یوں رہا ہے اسرائیلی ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو ڈیموگرافک تبدیلی میں انڈیا کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں اس قانونی مشکل کو دور کیا، جس میں کوئی غیر کشمیری یہاں زمین نہیں خرید سکتا اور یہاں کا شہری نہیں بن سکتا۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہوگا، جب انڈیا کی غریب ریاستوں جیسے بہار وغیرہ سے بڑی تعداد میں غیر کشمیری یہاں لائے جائیں گے اور انہیں مقامی ڈومیسائل دیئے جائیں گے اور ان کے نام بڑی سرکاری زمینیں الاٹ کی جائیں گی۔ بالکل اسرائیلی طریقہ کار کے مطابق انہیں اعلیٰ درجے کے شہری بنایا جائے گا اور کشمیریوں پر عرصہ حیات یونہی تنگ رکھا جائے گا۔ اسرائیل کے کسی پڑوسی ملک سے اچھے تعلقات نہیں ہیں، ہر ملک کو اس نے امریکی پشت پناہی سے دھمکا کر رکھا ہوا ہے اور پابندیوں کے خوف، سازشوں کے ڈر اور اندرونی بغاوتوں کی تاریخ کی وجہ سے ان ممالک کی قیادتوں نے اسرائیل سے معاہدات کیے ہیں۔

مصر کو ہی لے لیں، اس نے عالم عرب و عالم اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے صرف اپنے مفاد اور اسرائیلی قبضہ سے اپنی زمین چھڑانے کے لیے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا تھا۔ اسرائیل نے ہر پڑوسی کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، لبنان کے شیبہ فارمز اس کے قبضہ میں ہیں، فلسطین تو پورے کا پورا وہ نگل چکا ہے۔ پندرہ فیصد کے قریب جو علاقے بچے ہیں، وہ فقط اور فقط اسلامی مقاومت اور بیداری کے نتیجے میں ہی بچے ہیں۔ اردن اور اسرائیل معاہدے کے نتیجے میں تزوفر اور بقورا نام کے دو اردنی علاقے پچیس سالہ لیز پر اسرائیل کو دے دیئے گئے اور اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اسے لے کر 2019ء میں کافی تنازع پیدا ہوا، جس میں اردن نے اس لیز کی مدت بڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح اسرائیل نے شام کی گولان کی پہاڑیاں اپنے قبضے میں لے رکھی ہیں اور شام میں موجود انتہاء پسند گروہوں کی مدد کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انڈیا سری لنکا کے تامل باغیوں کی مدد کیا کرتا تھا اور سری لنکا کے استحکام کے خلاف تھا۔ سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے اس بغاوت پر قابو پایا۔

انڈیا نے اسرائیل کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے نیپال کے علاقے کالا پانا کو اپنا حصہ قرار دیا ہے اور ایسے نقشے جاری کیے ہیں، جن میں یہ علاقے اس کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ حالانکہ ان پر انڈیا نے 1962ء میں قبضہ کیا تھا اور 1961ء میں یہاں نیپال نے سرکاری طور پر مردم شماری کا انعقاد کیا تھا، جس پر انڈیا نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا، یعنی یہ خالصتاً نیپالی علاقے ہیں، جہاں انڈیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ 1816ء میں نیپال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان سرحدی امور سے متعلق تنازع کو حل کرنے  والے معاہدے کے بھی خلاف ہے، جس میں اس علاقے کو نیپال کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔ ابھی آج کی خبر ہے کہ انڈیا اور نیپال کے درمیان سرحد پر جھڑپ میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے انڈیا اس سڑک کی شدید مخالفت کر چکا ہے، جو چین اور نیپال کو باہمی طور پر منسلک کر دے گی اور چائینہ اسے ون بیلٹ ون روڑ کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اسی طرح انڈیا چائنہ کی نیپال میں سرمایہ کاری  کے بھی خلاف ہے۔ اس سے پہلے نیپال نے ماؤنٹ ایورسٹ کی پیمائش میں انڈیا کو شامل نہیں کیا تھا، اگرچہ یہ بظاہر چھوٹا سا عمل تھا، مگر اس میں سرحدی امور سے متعلق کئی باریکیاں پائی جاتی تھیں۔

انڈیا نے بھوٹان کو اپنی ذیلی ریاست کے طور پر ہی ڈیل کیا ہے، مگر اب وہ انڈیا کی دھونس کے خلاف اٹھ رہا ہے۔ بھوٹان نے انڈیا کو اپنی کالا ندی سے پانی کی سپلائی روک دی ہے۔ کالا ندی کو آسام کے سرحدی بکسا ضلع کے کسانوں کے لیے شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ندی سے نکلنے والی نہر سے ضلع کے 26 گاوں کے کسان اپنی فصلوں کی سینچائی کرتے ہیں۔ بالکل اسرائیل کے طریقہ کار کے مطابق انڈیا بھی نقشوں کی سیاست کھیل رہا ہے اور اس پر بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ نیپال کے علاقوں کو اپنا ظاہر کیا تھا، اسی طرح جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کے بعد انڈیا نے ایک نیا نقشہ جاری کیا تھا۔ نقشے میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ حصوں کو شامل کیا گیا تھا۔

انڈیا کی چین کے ساتھ مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں ہے، امریکہ کی شہ پر چین کی امن کی ہر دعوت کو ٹھکرا دیتا ہے اور اب لداخ میں انڈین فوجیوں کی پٹائی سے جہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، وہیں پوری دنیا میں انڈیا کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ اب انڈیا باقاعدہ چائنہ کے تجارتی بائیکاٹ کی مہم چلا رہا ہے، جو اس کی دیگر مہمات کی طرح ناکام ہوگی۔ اسی طرح انڈیا امریکی شہ پر ہی پاکستان اور چائنہ کے درمیان قائم ہونے والی تجارتی راہداری پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سی پیک پر انڈیا اور امریکہ کے اعتراضات کی نوعیت ایک سی ہے۔ اسرائیل کے طریقہ کار کے عین مطابق انڈیا کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا، جیسے اس نے چاہ بہار زاہدان ریلوے ٹریک بچھانے کا اعلان کیا، مگر سالوں گزر جانے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا اور جمہوری اسلامی کی حکومت نے اسے اپنے وسائل سے تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا۔

پاکستان میں بلوچستان سے لے کر کشمیر تک ہر طرح کی مداخلت کی جاتی ہے اور ہر اس شخص یا تنظیم کی مدد کی جاتی ہے، جو ریاست پاکستان کے خلاف انڈین مفادات کے لیے کام کر رہا ہو۔ یہ بھی بالکل اسرائیلی طریقہ کار کے مطابق ہے۔ وہ ہمیشہ مقاومت اسلامی کے خلاف ہر فرد اور تنظیم کی مدد کرتا ہے، وہ چاہے داعش جیسی انسانیت دشمن تنظیم ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح انڈیا کے پڑوسی باہمی طور پر چین کے ساتھ متفق ہو کر انڈین چیرہ دستیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اسے ہر میدان میں ناکامی کا سامنا ہے، اگر اسرائیل کے پڑوسی بھی اتحاد کا مظاہرہ کرتے تو اسرائیل کو آسانی سے نکیل ڈالی جا سکتی تھی۔
خبر کا کوڈ : 875907
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش