0
Friday 14 Aug 2020 16:16
تنقیدی جائزہ

پاکستانی ڈرامہ "منافق" پر ایک طائرانہ نگاہ

پاکستانی ڈرامہ "منافق" پر ایک طائرانہ نگاہ
تحریر: عظمت علی(لکھنؤ، انڈیا)
rascov205@gmail.com

کورونا وبا نے جہاں انسان کی زندگی درہم برہم کر رکھی ہے، وہیں اس کی آمد نے دنیا کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی ہے، لیکن اس کی مجال جو میڈیا اور سوشل میڈیا کے آڑے آسکے۔ کورونا ایک خطرناک بیماری ضرور ہے، مگر میڈیا بھی کسی سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے شاید اس نے اپنی موجودگی کا معاون تسلیم کرتے ہوئے اس پر کسی بھی قسم کا حملہ کرنے سے گریز کیا۔ فی زمانہ ہماری زندگی تو میڈیا کی نذر ہوگئی ہے۔ میڈیا پر گردش کے دوران پاکستانی سیریل جسے اہل پاکستان "ڈرامہ" کہتے ہیں، کا شوق بیدار ہوگیا۔ میں نے "شخص دیگر" کی فرمائش پر ایک ڈرامہ کو اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل میں جگہ دے دی۔ مجھے کیا علم تھا کہ یہ ڈرامے اتنا بڑے ڈرامہ باز ہوتے ہیں کہ بار بار اپنے دیدار کی خواہش کو ابھارتے رہتے ہیں۔

ایک روز علی الصبح کسی کام سے فارغ ہو کر یوں ہی دل میں خیال آیا کہ دیکھیں "منافق" ہے کیا۔۔۔۔؟ اس سے پہلے تو کبھی مجھ پر کسی سیریل کا بھوت نہیں سوار ہوا تھا، چونکہ میں خود کسی کو اہمیت دینے کا قائل نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہوں، مگر اس دن تو عجیب قصہ ہوگیا۔ صبح پہلی قسط تمام کی تو دل نے ذرا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کچھ اور دیکھ لو۔ دیکھو تو آگے ہوتا کیا ہے؟ خیر میں نے بھی دل کی مان لی۔ اب جو بات چلی سو چلتی ہی رہی۔ درمیان راہ میں خیال امڈا کہ اب بس کیا جائے، بہت ہوگیا ہے مگر گذشتہ قسطیں اس خیال کو مات دی جاتیں اور کانا پھوسی کر دیتیں کہ یوں بھی لاک ڈاؤن ہے، کوئی کام وام نہیں ہے۔ ممکن ہے اس سے اردو کی اصلاح ہی ہو جائے۔ اردو کی اصلاح کا خیال یوں آیا کہ ہمارے دوست یہی کہہ کے مجھے ورغلاتے تھے کہ پاکستانی ڈرامے دیکھ لو، ان کی اردو بہت نپی تلی ہوتی ہے، سو میں جال میں آہی گیا۔

"منافق" رواں سال 27 جنوری 2020ء میں جیو ٹی وی پر نشر ہونے والا ایک پاکستانی فیملی ڈرامہ ہے، جو ساٹھ قسطوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ ڈرامہ حنا ہما نفیس کی لکھی اسکرپٹ پر مرکوز ہے۔ اجالا، ارمان، صبیحہ بیگم، حمزہ اور صوبیہ اس کے مرکزی کردار ہیں۔ اداکارہ اجالا ایک نجیب اور متوسط گھرانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے والد اور بھائی دونوں ارمان کی فیکٹری میں ملازم ہوتے ہیں۔ ایک روز ایک گیس حادثہ میں ان دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اجالا کا یقین کامل تھا یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے، جبکہ ارمان اسے محض ایک حادثاتی موت قرار دینے پر مصر تھا۔ اجالا ایک بیٹی اور بہن کے روپ میں اپنے باپ اور بھائی کے قاتل سے انتقام لینے کی ٹھان لیتی ہے۔ مکمل عزم و ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے، مگر ایک متوسط گھرانہ کی تنہا لڑکی کب تک انتقام کی جنگ لڑتی۔۔۔۔!؟

ڈرامہ میں بھی ایسے ہی مشاہدات سامنے آئے۔ اس نے چند روز سر توڑ کوشش کی، لیکن یک و تنہا اور افلاس و مصیبت کی ماری لڑکی کہاں تک لڑتی، وہ بھی ایک امیر زادہ سے۔ آخرکار حالات نے اسے جنگ بندی پر مجبور کر ہی دیا اور باپ و بھائی کے قاتل سے جبراً اور سیاسی مفاد کے پیش نظر اس کی شادی رچا دی گئی۔ آتش انتقام کو محض سرد کرنے کی غرض سے کی گئی شادی تو بہرحال کوئی رشتہ نہ تھا، لیکن یہاں اجالا کا کردار مکمل طور پر محبت میں بدل جاتا ہے۔ ایک مظلوم لڑکی جو اپنے مقتول کے انتقام میں اللہ پر اتنا یقین رکھتی تھی، محض ایک کاغذی نکاح کے بعد قاتل پر جان کیسے چھڑکنے لگی۔ چلئے کسی حد تک اسے قبول کر لیتے ہیں، مگر جب شوہر کا اصل چہرہ سامنے آگیا کہ یہ نکاح محض ایک سیاسی کھیل تھا، پھر بھی اس کے لیے اپنی زندگی قربان کرنا چہ معنی دارد۔۔۔!؟ کیا کوئی اتنا زیادہ مثبت ہوسکتا ہے ۔۔۔؟ قاتل شوہر کے لیے دل و جان نچھاور کرنا احمقانہ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسا نہ تو سماج میں ہوتا ہے اور نہ ہی اندھی محبت میں۔

اجالا دنیا کی نگاہ میں ایک محل میں زندگی گزار رہی ہے، جو کہ درحقیقت ایک سونے کا پنجرہ ہے۔ میں تو "سونے کے پنجرہ" کی تعبیر کا بھی قائل نہیں۔ اس میں کم از کم پرندے کو بروقت غذا اور محبت میسر ہو جاتی ہے، مگر یہاں تو محبت کا نام ہی معدوم تھا۔ ہاں! یہاں صبر اور مثبت کردار کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ جس گھر میں پہلے ہی اتنے مصائب بسیرا کئے ہوں، اس میں مزید مصائب کا اضافہ سوہان روح ثابت ہوسکتا ہے۔ اتنی ساری مشکلات پر گلہ نہ کرنا بہرحال ایک مثبت پہلو ہے۔ اسی سبب جب اجالا کو ارمان کی دنیا سے نکال کر حقیقت دکھا دی گئی تو اس نے اپنے گھر میں سکونت کے بجائے آنسو اور صبر کا سہارا لیا۔ یہ عظیم اور اٹل سچائی ہے کہ آنسو بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔ غم و آفات کو کم کرنے کا بہترین راستہ آنسو ہے۔ جب بچہ پریشانی میں ہوتا ہے تو رونے لگتا ہے، کیونکہ اس کے پاس اس سے زیادہ کارآمد اسلحہ نہیں ہوتا۔

تاریک شب میں شہر کی دربدر ٹھوکریں کھانا کس کو پسند ہے؟ حالات مجبور کرتے ہیں۔ ڈرامہ میں اس کڑوی حقیقت کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ درمیان راہ حمزہ آجاتا ہے اور سیاہ شب میں امید کا اجالا اپنے ہمراہ لے جاتا ہے۔ حمزہ کے گھر میں اجالا ہے، جبکہ اس کی زندگی میں کشمکش۔ اسے گھر کی چاردیواری میں قید اجالا سے بے تحاشہ محبت ہوگئی تھی۔ اس نے ایک طویل مدت تک اجالا کی خدمت کی اور اس دوران اس کی سسرال سے ہمدردی کا ایک پیغام بھی نہ آیا، لیکن ابھی بھی اجالا کا اندھا اور ایک طرفہ عشق جاگ رہا تھا۔ یہ الگ بات کہ ارمان کے دل میں اس کے لیے کبھی جگہ تھی ہی نہیں۔ یہ بات اس کو بھی معلوم تھی، مگر اسے حقیقت کو بدلنا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ اس واجب الوجود کے سامنے ممکن کا تصور بھی محال ہے۔ وہ "کن" کہتا ہے "فیکون" ہو جاتا ہے۔ اس کو اپنے پروردگار پر بے حد بھروسہ تھا، مگر ڈرامہ میں اس کو مکمل اور واضح طور پر ثابت نہیں کیا گیا۔ اس کو یقین تھا کہ اسے اپنے باپ اور بھائی کا انصاف ملے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔

ایک مدت ہوئی حمزہ کے گھر قیام کئے ہوئے۔ حمزہ نے شادی کا اظہار بھی کیا، مگر جواب منفی ملا۔ ڈرامہ کا یہ عجیب کردار تھا کہ ارمان فیملی کی حقیقت برملا ہو جانے کے بعد بھی اسے نیکی کی امید تھی۔ کیا واقعاً ایسا ہوتا ہے؟ ایک انسان پر سب کچھ واضح ہو جانے کے بعد محض ایک کاغذی نکاح پر اتنا بھروسہ کہ دنیا و مافیہا کی کچھ نہ سنے۔ اب ارمان کی صوبیہ سے شادی ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر بھی خلاصہ کرچکے ہیں کہ صوبیہ ماں نہیں بن سکتی۔ سو اندھیرے میں اجالا کی ضرورت محسوس ہے، ارمان آتا ہے، تاکہ اجالا کی گھر واپسی ہوسکے، لیکن عدم یقین دہانی کے باعث ارمان، اجالا سے محروم رہتا ہے۔ اب صبیحہ بیگم آتی ہیں۔ انہوں نے ہلکا سا نفساتی جال پھینکا اور ناراض محترمہ راضی ہوگئیں۔ ایک جملہ پر مہینوں بھر کے دکھ درد سب قربان۔۔۔! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایسی لڑکی جو ہر عملی اقدام سے پہلے دسیوں دفعہ اس کے پہلو پر نگاہ کرتی ہے، جھٹ ایک نفسیاتی جملہ پر اپنے ہرے زخم فراموش کر جائے۔ شاید یہ اندھی محبت کی آخری حد ہے!

ارمان کے دل میں جگہ بنانے کی حسرت بس دعا اور مناجات تک ہی محدود رہ گئی۔ اجالا کا شب و روز عبادت میں بسر کرنا کس کام کا۔۔۔؟ دعا تو قبول نہیں ہوئی۔ یہ منفی کردار کی جانب بھی ایک قدم ہوسکتا ہے اور مثبت کردار کی طرف بھی کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ بہتر ہی کرتا ہے، لیکن یہاں تو بہتری کا تصور ہی معدوم ہے۔ آنکھ کھلنے اور حقیقت آشکار ہو جانے کے بعد سچائی کے خلاف دعا کرنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔؟ اجالا کی اولاد ہو جاتی ہے۔ اسے ورغلا کر ارمان نومولود کو بیرون ملک لے جاتا ہے۔ ماں کو مردہ بچہ کی خبر دی جاتی ہے۔ یہ جھوٹ پورے ڈرامہ میں پس پردہ ہی رہا، جبکہ اس کا پردہ فاش ہونا ضروری تھا۔ اب اسپتال میں اس اجالا کی مدد کرنے کو صرف وہی حمزہ آتا ہے۔ ساری مشکلات میں اس کا سہارا صرف وہی اس کا عاشق ہوتا ہے۔ وہ اپنے سسرال آتی ہے اور مایوسانہ زندگی کی شام و سحر کاٹنے لگتی ہے۔ ارمان کی آمد نے اسے خوش تو کیا، مگر نومولود کے دیدار نے اس کے دل میں شکوک پیدا کر دیئے۔

اس نے یہاں حمزہ کا سہارا لیا اور تفتیش کے بعد حقیقت کھل گئی کہ نومولود تو درحقیقت اسی کا خون ہے۔ ماںاپنی ممتا ثابت کرنے کی راہیں فراہم کرتی ہے۔ ڈی این اے کراتی ہے اور حقائق ثابت ہونے کے بعد اپنے بچہ کو راتوں رات گھر سے اٹھا کر جانب شہر بھاگ جاتی ہے۔ اجالا کی والدہ کے موبائل پر آئی کال کو ٹریس کرکے ارمان اجالا سے اس کا ارمان چھین لیتا ہے۔ یہاں آخر تک اجالا اور حمزہ کے درمیان غلط فہمی بنی رہتی ہے کہ ارمان کو اجالا کی موجودگی کا علم حمزہ کے باعث نہیں بلکہ اس کی والدہ پر آئی کال سے ہوا تھا۔ یہ بات واضح ہو جاتی تو اجالا کے دل میں حمزہ کے لیے بہرحال جگہ بن جاتی۔ اب سارا جھگڑا بچہ کی ذات سے ہے۔ وہ ارمان کے پاس رہے گا یا اجالا کے پاس۔ یہاں بھی حمزہ سہارا بنتا ہے۔ اس کردار میں بھی اجالا اپنے رب پر یقین کامل کا مظاہرہ کرتی ہوئی خود کیس لڑتی ہے، مگر یہاں بھی اس کی مراد پوری نہیں ہوتی۔ ہاں! اسے اپنا بچہ مل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کردار (کیس ہار جانا) منفی اثر رکھتا ہے، لیکن حقیقت میں دولت بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔

جب حمزہ اپنا وعدہ پورا کر دیتا ہے تو اس کے حسرت بھلے کلمات کہ اب مجھے کوئی جھوٹی تسلی مت دینا، میں مر جاؤں گا۔ تب اجالا اسے اپنا بچہ دیدیتی ہے۔ یہ ڈرامہ کا اختتام ہے۔ میری نگاہ میں اس کی تکمیل ادھوری سی ہے۔ پورے ساٹھ قسطوں کے ڈرامہ میں ایک شخص اپنی محبت کے لیے جانے کیا کیا زحمتیں اٹھاتا ہے۔ یہ انصاف نہیں کہ اس کے اظہار محبت کے لیے محض رضایت کی ایک ہلکی سی جھلک پر اختتام کر دیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ تھا کہ کم از کم شان و شوکت سے شادی ہوتی اور دونوں کے مابین جو باتیں ابھی تک واضح نہ ہوسکی تھیں، سب سے پردہ اٹھتا۔ صبیحہ بیگم ایک نیک عورت کی صورت میں توبہ کرتیں اور سب مل جل کر ایک متحدانہ زندگی گزارتے۔ اس طرح ڈرامہ کا اختتام مثبت کردار پر ہوتا تو نہایت عمدہ اختتام ہوتا۔ ڈرامہ کا عجیب خلاصہ ہے، آغاز بھی قتل سے اور اختتام بھی قتل پر اور درمیان کے ساری قسطیں محبت کے گرد گھومتی ہیں۔

اس ڈرامہ میں کچھ سین غیر واضح رہے ہیں، جن کا سب پر عیاں ہونا ڈرامہ میں چار چاند لگا سکتا تھا۔ ڈرامہ کا نام "منافق" بجا سہی، لیکن منافقت سے زیادہ خود غرضی کو دکھایا گیا ہے۔ اگرچہ اجالا کا کردار ایک مومنہ کی صورت عیاں کیا گیا ہے، لیکن کہیں نہ کہیں اس کی مطلب پرستی کی جھلک دکھ ہی جاتی ہے۔ اب چاہے وہ مجبوری ہی کیوں نہ رہی ہو۔ دوسری دفعہ ارمان کے گھر میں اس کی آمد ہوتی ہے اور وہ صرف ایک دکھاوے کی محبت کی خاطر اپنے محسن حمزہ کی کال پر یوں برہم ہو جاتی ہے کہ گویا دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں، جبکہ وہ تو صرف حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دراصل صوبیہ بچہ جننے سے قاصر تھی۔ یہ حقیقت بھی ہمیشہ کے لیے پس پردہ ہی رہی۔ اگر یہ نیم تشنہ موضوع اجالا کی آگاہی میں آجاتا تو اس کے دل میں حمزہ کے لیے ضرور محبت جاگ جاتی۔ مان لیتے ہیں کہ ایک غیر مرد سے بات کرنا غلط ہے، مگر وقت ضرورت اسے استعمال کرنا بھی تو ٹھیک نہیں۔

ایک بات جو ویکی پیڈیا پر تحریر ہے کہ یہ فیملی ڈرامہ ہے، جبکہ بعض ایسے مشاہدات ہیں، جسے ایک شریف انسان کبھی بھی دیکھنے سے راضی نہیں ہوگا۔ عدیل کا اجالا کی تنہائی کا فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کرنا۔ اسی طرح حمزہ کا ابتدائی قسط میں اجالا کو گھر پہنچانے کے بہانہ کسی گھر میں بند کرنے، موبائل چھین کر اسے پریشان کرنے اور ذرا سی جسمانی قربت ہونا۔ نیت صاف تھی یا دھندلی، اس سے کوئی مطلب نہیں لیکن پیغام غلط جاتا ہے۔ اجالا کو اتنا زیادہ صابر، شریف اور مجبور دکھایا گیا کہ وہ اپنے "ما فی الضمیر" کی ادائیگی سے بھی قاصر نظر آتی ہے کہ کم از کم اپنے حق کا دفاع تو کرسکے۔ سچ ہے کہ انسان کبھی کبھی اتنا مجبور ہو جاتا ہے، لیکن کب تک۔۔۔۔؟! چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی ہے۔ اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوا، وہ پھر بھی وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکی۔ ایک دفعہ ارمان کے گھر حمزہ کا آنا، تاکہ صوبیہ کے متعلق حقائق سے پردہ اٹھایا جاسکے کہ اسی اثناء ارمان و صبیحہ بیگم آگئیں۔ اس وقت ارمان کی نگاہ میں دونوں کسی غلط کام میں ملوث تھے، کے خیالات آگئے۔ اس وقت بھی اجالا واضح نہ کرسکی کہ ماجرا کیا ہے، جبکہ حمزہ نے تو بتایا بھی کہ اسے صوبیہ نے کسی کام کے تحت بلایا ہوا تھا، لیکن صوبیہ اپنی بات سے پلٹ گئی۔ اب ماجرا کافی مشکل ساز ہوگیا تھا، حقائق پھر بھی غیر واضح رہے۔

جب اجالا کو دوبارہ ارمان کے گھر سے نکال دیا گیا اور طلاق نامہ بھی آگیا۔ اس وقت بھی مطلقہ کا دل حمزہ سے شادی کرنے کی جانب مائل نہ ہونا بھی عجیب کردار تھا۔ اجالا کا ارمان پر اس حد تک اندھا یقین کہ دوسری بار گھر سے بے دخل ہونے کے بعد ارمان کی ایک کال پر اتنی خوشی کہ گھر کی آرائش کر ڈالی اور تحفہ میں کیا ملا وہی طلاق نامہ۔ حمزہ کے گھر آئے مہمان عدیل کی بدسلوکی و بدتمیزی سے حمزہ کو آگاہ نہ ہونا اور اجالا کا اپنے سچ ہونے کا محکم ثبوت پیش نہ کرنا، جس کے باعث حمزہ کے دل میں ذرہ برابر سی ہی سہی یہ بات بیٹھ گئی کہ کہیں اجالا بھی تو اس کام میں ملوث نہیں ہے۔ اس اہم کردار کا شفافیت سے محروم رہنا بھی نامناسب تھا۔

جب اجالا حمزہ کے ہمراہ ریسٹورانٹ میں گئی اور اچانک سے وہاں ارمان کی آمد ہوگئی۔ سو دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی۔ یہ غلط فہمی کی خلیج بھی پر نہ ہونے پائی کہ وہ اپنی شاگردہ کے اصرار پر وہاں آئی تھی۔ بہرکیف، ڈرامہ کے حوالے سے لکھنے کو بہت کچھ ہے، کہاں تک ضبط تحریر میں لایا جائے، لیکن ایک بات واضح کہ یہ ڈرامہ مجھے کافی پسند آیا۔ اپنی نوعیت کا بہترین ڈرامہ تھا۔ ڈرامہ کے سارے کردار بہترین ہیں، لیکن حمزہ کی اداکاری اور کردار دونوں لاجواب رہے ہیں۔ مجھے تو اس کے کردار نے اپنا دلدادہ بنا لیا ہے۔ سچ تو یہ کہ میرا سارا تمرکز حمزہ کا کردار ہی رہا تھا۔ ہاں! میری نگاہ میں کچھ باتیں غیر واضح تھیں، جن میں سے صرف بعض کو صفحہ قرطاس کے حوالہ کیا گیا ہے۔ تنقید، بلندی کی طرف جانے کا محض ایک راستہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 880261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش