0
Friday 23 Oct 2020 14:33

ایاک نعبد و ایاک نستعین

ایاک نعبد و ایاک نستعین
تحریر: عبدالحسین آزاد

قرآن پاک، کلام الٰہی ہے،جو روئے زمین پر سب سے متعبر، مقدس کتاب ہے۔ قرآن پاک دنیا میں سب سے زیاہ تلاوت کی جانے والی کتاب ہے۔ اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت خود مالک کن فیکون نے لی ہے ترجمہ ''ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں''۔ اس کتاب عظیم میں روئے زمین پر موجود تمام حشرات العرض سے متعلق علوم موجود ہے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی گزارنے کا سلیقہ قرآن مجید، سنت رسول ﷺ اور سیرت اہلبیت علیہ السلام میں پایا جاتا ہے۔ قرآن پاک تاقیام قیامت زندوں کی رہنمائی، ہدایت اور ہر نئے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے۔ قرآن سرمایہ حیات، خزینہ علم و فکر و فلسفہ ہے۔ زندوں کیلئے نازل ہونے والی کتاب کو ہم مردوں پر پڑھتے ہیں، ایصال ثواب کی نیت سے، کبھی غور و فکر کی نیت سے مطالعہ کرتے تو آج ہمارا مقام کچھ اور ہوتا۔

زبانی خرچ پونجی کی حد تک ہم مسلمان ہیں، میدان عمل میں مسلمان کم ہی رہ جاتے ہیں، بقول اقبال "وہ مسلمان جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود " انگریز جو کہ قرآن پاک کو نہیں مانتے لیکن آج قرآن پاک کی عملی تفسیر پر عمل کرکے نت نئی ایجادات کرنے میں مشغول ہیں۔ مسلمانوں کا کام بے دھڑک انگریزوں کی ایجادات کو اس جواز کیساتھ رد کرنا ہی رہ گیا ہے کہ یہ ایجادات 14،16 سو سال قبل مسلمانوں کی بتائی گئی ہیں۔ آج جس آیت کو ہم نے سرنامہ کلام قرار دیا ہے وہ قرآن پاک کی معروف سورہ فاتحہ کی آیت ہے۔ جس میں نہ صرف فرد واحد، بلکہ معاشرتی و قومی زندگی کی مشکلات کا حل، معاشی نچوڑ اور باعزت زندگی کا ہدف چھپا ہوا ہے۔ خاص کر مسلم ممالک جو ترقی کی دوڑ میں ابھی شامل نہیں ہوئے ہیں، جو آل یہود، آل سعود اور نصاریٰ کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہو ئے ہیں۔ جو اپنی معنویت، شناخت، تقدس اور قوت فیصلہ کھو چکے ہیں، وہ سعودی اور یہودی اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سعودی اور یہودی طاقتیں مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں۔

اس کا عملی مظاہرہ آل سعود کی ایما پر عرب امارات اور قطر کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے، بلکہ سعودی عرب بھی اس منزل کو پانے والا تھا مگر عوام کے سخت ردعمل کے پیش نظر اس فیصلے کو التواء میں رکھا گیا۔ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطینیوں کے خون کا سودا کرتے رہے مگر پاکستانی حکمران، سیاست دان، ریاستی ادارے اور بشمول ریاست، کسی نے بھی لبوں کو جنبش دینے کی ہمت نہیں کی، وجہ سعودی امداد اور پیکج کی شکل میں ملنے والا قرضہ ہے۔ جس کی واپسی کا تقاضا بھی کیا جا چکا ہے۔ امریکی غلامی، ملک کے اندر انتشار، آئی ایم ایف کا پاکستان پر معاشی خودکش حملہ سب ہم سہنے پر مجبور ہیں، وہ اس لیے کہ قرآن پاک کی تلاوت سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی شروع کی جاتی ہے پھر جھوٹ، الزامات، فریب اور مکاریوں کا طوفان اسمبلی کی در و دیوار کو لرزاں کرتا ہے۔ قرآن پاک سے دوری اور دین اسلام کے نظریات کو پس پشت ڈالنے کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ قرآن میں ایک اسلامی ریاست کے تمام امور کے متعلق واضح احکامات ہیں، کہ ایک خودمختار اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی سے لے کر معاشی پالیسی کن قوانین کے تحت ہونی چاہیئے سب طے ہے، مگر استفادہ کرنے کے لیے ہم تیار نہیں۔ 

قرآن میں جب اللہ تبارک و تعالٰی نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ ''یہود و نصارٰی کبھی تمہارے خیر خواہ، دوست نہیں بن سکتے'' پھر بھی دوستی کا ہاتھ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ کی جانب بڑھایا جائے گا۔ آیت کریمہ کی تلاوت صبح و شام کریں گے مگر وجہ نزول سمجھنے کی کوشش نہ کرنا بدقسمتی ہے۔ جس ملک کے نصف سے زیادہ مدارس سعودی فنڈڈ ہوں اور نصاب امریکن مرتب شدہ ہو وہاں بعید از قیاس نہیں کہ ایسا نہ ہو۔ تاریخ پاکستان میں پہلے وزیراعظم ہیں عمران خان جو قرآن پاک کی آیت کریمہ کی تلاوت سے تقریر کے آغاز کی جرات رکھتے ہیں، چاہے اجلاس اقوام متحدہ میں ہو یا انٹرنیشنل لیبر فورم یا پھر ملک کے اندر اجتماعات ہوں۔ وزیراعظم تقریر کا آغاز "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" کی تلاوت سے کرتے ہیں، ترجمہ ''ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں'' ذرا غور فکر کریں اس آیت کے ترجمہ پر تو آپ کو کامیاب زندگی کا راز ملے گا، آیت مبارکہ پر عمل پیرا ہونے سے آپ کی نفس کو تکریم حاصل ہو گا، کتنا پیارا اور خوبصورت کلام ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ کی تلاوت تو ہم نماز پنجگانہ میں اور سنت نمازوں میں دن میں کم از کم از 20 سے 25 مرتبہ کرتے ہیں، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اس آیت کے عملی مفہوم پر غوروفکر کرتے؟۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم آیت مبارکہ کو نہ صرف اپنی تقریر کا سرنامہ کلام قرار دیتے بلکہ اس کو پاکستان کی معاشی و خارجی پالیسی کا سرنامہ کلام قرار دیتے۔ کاش اگر ایسا ہوتا تو ہمیں نہ کسی کے در پر جھکنا ہوتا، نہ ریاست کا وقار مجروح ہوتا بلکہ ملک میں امن اور خوشحالی آ جاتی۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور یورپی ممالک کی غلامی ہمارا مقدر نہیں بنتی۔ مسلمان ممالک کیلئے اس آیت میں ایک مضبوط خارجہ پالیسی پوشیدہ ہے، یہی تو اس عظیم کتاب کی صفت ہے کہ یہ کتاب ہر زمانے کے تقاضے پوری کرتی ہے۔ اس آیت میں انفرادی، معاشرتی، قومی اور ملکی عزت کا راز پوشیدہ ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس آیت کو نہ صرف زبانی کلامی تک محدود رکھیں، بلکہ آیت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، صبر کے ساتھ زندگی گزاریں تو اللہ تعالیٰ وہ نعمتیں عطا کرینگے جس کا ہمیں گمان بھی نہ ہو۔ ترجمہ ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کی نجات کے لیے صورت نکال دیتا ہے، اور اس سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو''۔ (سورہ الطلاق آیت نمبر 2,3)

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، کا مطلب ہے کہ دنیا میں سوائے تیری ذات کے کوئی دوسرا اس قابل نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے اور اس کی بندگی کی جائے اگر انسان اس آیت کو عملی زندگی کے پیرائے میں رنگے تو سوائے خدا کے اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوگا، بس پھر کیا ہے کہ ظالم طاقتیں چاہیں جتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہوں ان کی شکست فاش یقینی ہوگی۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تو کیوں کسی کی بےجا غلامی کی جائے، ایک مسلمان ملک کا نظریہ یہی ہوگا تو پھر دنیا کی کوئی بھی فوج، سپر طاقت اس کو ڈرا نہیں سکتی، نہ ہی کسی طاقت کے سامنے یہ سرنگوں ہونگے۔ کاش کاش اے کاش ہمارے ملک کے حکمران اس آیت پر عمل کرتے تو ہماری آج جو معاشی صورتحال ہے وہ بھکاریوں والی نہ ہوتی۔ ہمارا ایک الگ مقام بلند ہوتا مگر ایسا نہیں ہے، تلاوت کی جاتی ہے عمل نہیں۔ اس لئے کبھی آئی ایم ایف تو کبھی ورلڈ بینک تو کبھی چین تو کبھی امریکہ تو کبھی قطر تو کبھی سعودی عربیہ کے سامنے جا کر بھیک مانگتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اگر ہم کامل یقین کیساتھ اس آیت مبارک پر عمل کریں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کچھ مہینوں کے اندر ملک کا نقشہ بدلے گا۔

معاشی خوشحالی، ترقی، امن اور مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ پاکستان کا مقام بنے گا۔ اگر ہم اپنی نجی زندگی میں اس آیت پر عمل کریں تو پھر ہم کسی ظالم کا ساتھ نہیں دینگے، غربت کا خوف ہمارے سروں پر نہیں منڈلائے گا اور ہم اپنی غربت کے سامنے کبھی بے بس نہیں ہونگے اور جب کہیں بھی کوئی مشکل پیش آئے گی تو ہمیں سرنگوں ہو کر غلط کام کرنے کی بجائے حوصلہ ملے گا کہ'' ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں:'' پھر ہم کسی اور کے سامنے کیوں جھک جائیں، کسی کام کو نکالنے کی غرض سے کیوں رشوت دیں، نوکری کے حصول کیلئے کیوں میرٹ کا قتل کریں۔ روزمرہ کے کاموں میں کیوں دیانت داری کو اپنے ہاتھ سے جانے دیں۔ اگر ہمارا پختہ یقین ہو اس آیت پر اور ایک مسلمان کی حیثیت سے پختہ یقین ہونا بھی چاہیئے کیونکہ قرآن پر یقین کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ خدا ہم سب کو قرآن پاک سے مستفید ہونے اور اس پر عمل کر کے اپنی روزمرہ کی زندگی میں نمونہ عمل قرار دینے کی توفیق عنایت کرے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 893609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش