0
Tuesday 15 Dec 2020 23:56

پاراچنار، عدالت کا قیام اور ظلم کی روک تھام کس کی ذمہ داری؟

پاراچنار، عدالت کا قیام اور ظلم کی روک تھام کس کی ذمہ داری؟
تحریر: ایس این حسینی

ماقبل تاریخ رائج قبائلی نظام میں انصاف:
کسی زمانے میں جب دنیا میں باقاعدہ حکومتیں نہیں تھیں، قبائلی نظام تھا۔ ہر مخصوص علاقے میں ایک مخصوص قبیلہ آباد ہوتا تھا، جبکہ وہاں سے دور کسی دوسرے مقام پر کوئی اور قبیلہ زندگی بسر کرتا تھا۔ گنے چنے لوگوں اور قبائل کے علاوہ ان کا کوئی خاص روزگار نہیں ہوا کرتا تھا۔ یوں وہ اپنی بسر اوقات لوٹ مار، چوری اور ڈکیتی سے حاصل شدہ مال پر کیا کرتے تھے۔ طاقتور قبیلے کے وارے نیارے ہوا کرتے تھے، جبکہ کمزوروں کی قسمت میں موت، در بدر کی ٹھوکریں اور غلامی ہوا کرتی تھی۔

انصاف کے قیام کیلئے حکومتوں کا قیام:
اس ظالمانہ نظام سے تنگ آکر انسان کے ذہن میں باقاعدہ حکومتوں کے قیام کا نظریہ اور فکر پیدا ہوئی، مگر یہ ایک خواب تھی۔ تاہم رفتہ رفتہ کمزور کو طاقتور اور مظلوم کو ظالم سے بچانے کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا گیا، یوں باقاعدہ حکومتوں کا قیام عمل میں آگیا۔ پھر جب عرب سرزمین پر سرور کائنات محمد مصطفیٰ (ص) کے توسط سے الہیٰ نظام حکومت قائم ہوا تو حکومت نے حکمرانی کے بجائے عدالت کی شکل اختیار کرلی۔ پھر ظالموں کا ظلم و زیادتی جڑ سے ختم ہوگئی اور مظلوموں و مستضعفین کو اپنے حقوق نہایت سستے داموں مل گئے۔

موجودہ حکومتیں اور انصاف:
ہمارے ملک پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں قائم حکومتوں اور اقوام متحدہ تک کا قیام ظلم کی روک تھام کے لئے نہیں بلکہ ظالموں کا ساتھ دینے کے لئے ہے۔ ملک بھر میں اس وقت ظلم کا بازار گرم ہے۔ مظلوموں کو ظالموں، کمزوروں کو طاقتوروں اور مستضعفین کو مستکبرین سے بچانے والا کوئی فرد یا ادارہ موجود نہیں، بلکہ آپ نے سنا ہوگا کہ بیس سال تک انصاف مانگتے مانگتے فلاں مظلوم نے عدالت کے سامنے خودکشی کرلی۔ ایسے واقعات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ ناانصافی کا رونا رونے والوں کی تعداد ملک میں کروڑوں میں ہے۔

عدالت کا قیام اور ظلم کی روک تھام کس کی ذمہ داری؟
جیسا کہ کہا گیا کہ کمزور اور مظلوم بلکہ ہر انسان ظلم سے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ طاقتور اور ظالم سے بچانے کے خواب کو بالآخر حقیقت کا روپ دیا گیا۔ باقاعدہ حکومتوں کے قیام کے ساتھ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر یہ بھی حکمرانوں کی منشا پر منحصر رہا۔ اچھا شخص برسر اقتدار آتا تو لوگوں کو کسی حد تک انصاف ملتا۔ ظالم اور مفاد پرست آتا تو لوگوں کو حکومت کے لبادے میں لوٹا جاتا۔ اپنے مفاد کے لئے قوانین بنائے جاتے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک اور علاقے کا قانون دوسرے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ہر قوم، ہر علاقے اور ملک نے اپنے مفادات کے لئے اور دوسروں کے استحصال کے لئے اپنا سا قانون بنا رکھا ہے۔

طاقتور حکومتیں تو دنیا کے ایک کونے سے جا کر دوسرے کونے کی کمزور حکومتوں کے تختہ اقتدار کو الٹ کر اپنے مطلب کے حکمران مسلط کراتی ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہزاروں میل دور سے آکر ایک غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر ان سے زندگی کی ہر سہولت چھین لیتی ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے وہاں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچوں تک کو موت کی ننید سلا دیتے ہیں۔ اس دوران انسانی حقوق کی بیچاری تنظمیں بھی چپ سادھ لیتی ہیں۔ دنیا سے ہمارا کیا واسطہ، آتے ہیں اب اصل موضوع اور مطلب کی جانب۔

کرم میں طوری بنگش قبائل کی حالت زار:
قبائلی ضلع کرم میں طوری بنگش قبائل جو کہ اصلاً اور نسلاً پاکستانی ہیں اور ہمیشہ سے محب وطن رہتے ہوئے انہوں نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی وطن عزیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے، جبکہ کرم میں موجود درجنوں افغان الاصل قبائل موجود ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی مخالفت اور بیخ کنی میں ہمیشہ دہشتگرد طالبان، القاعدہ، داعش اور لشکر جھنگوی کی کمک کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی مٹی کو افغانستان کے حوالے کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ پاک افغان بارڈر پر موجود دونوں قبائل کی تاریخ کی ورق گردانی سے اس حقیقت کا پتہ بخوبی مل سکتا ہے۔

پاکستان کے اس حساس سرحدی علاقے میں دونوں قبائل کے مابین زمینوں، پہاڑوں، صحراؤں اور شاملات کے درجنوں کیسز موجود ہیں۔ طوری قبیلہ زور زبردستی کے بجائے حصول انصاف کے لئے ہمیشہ حکومت سے رجوع کرتا ہے اور سرکار کے مرتب کردہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق فیصلے کا مطالبہ کرتا ہے، جبکہ مقابل فریق اور قبیلہ سرکاری ریونیو ریکارڈ کو یکسر مسترد کر دیتا ہے اور اپنے ناجائز قبضے کو جاری رکھنے کے لئے ہمیشہ دھونس، دھمکی، لڑائی اور جھگڑوں کا سہارا لیتا رہا ہے۔ ان کے زور و زبردستی کو اکثر مقامی حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ جس کا یہاں مختصر تذکرہ کئے دیتے ہیں۔

اراضی کے مسائل اور حکومت
عوام کو انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری پتہ نہیں کس کی ہوتی ہے، یہ علم تو ہمیں نہیں، تاہم اتنا تو پتہ ہے کہ فریقین کسی بھی مسئلے اور تنازعے میں ایک دوسرے کے موقف کو کبھی تسلیم نہیں کرتے، نہ ہی تسلیم کریں گے۔ ہر فریق اپنے ہی موقف پر ڈٹا رہتا ہے اور کبھی ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ قبائل میں جرگہ سسٹم کا رواج ہوتا ہے، لیکن وہ بھی افراد کے مابین قابل عمل ہوتا ہے۔ قبائل کے مابین جرگے کا فیصلہ تو ممکن ہے، مگر نافذ العمل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فریق قبائل کے مقابلے میں جرگہ کمزور ہوتا ہے، جبکہ ثالث کو قانوناً فریقین کے مقابلے میں طاقتور ہونا چاہیئے۔ جس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے عدالت اور حکومت۔
مگر افسوس کے ساتھ  کہنا پڑتا ہے کہ حکومتیں یہاں ثالث نہیں بلکہ فریق کا کردار ادا کرتی ہیں، یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہ کر ظالم کے ظلم کو دوام بخشنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کرم میں بالش خیل، کنج علی زئی، بوشہرہ، شورکی، لوئر علیزئی، پیواڑ، شلوزان تنگی نری میلہ، وغیرہ تمام مسائل کا حل حکومت کے پاس موجود ہے، مگر حکومت انہیں حل کرانا نہیں چاہتی، کیونکہ جارح قبائل کے ساتھ رشتہ داری اور مسلک داری انہیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔

اہلیان کرم کو امارات میں نشانہ بنانا
یہی نہیں، کرم میں موجود ان قبائل کو راستوں میں ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ باہر ممالک میں نشانہ بنایا جاتا ہے تو حکومت ان کی شکایت تک نہیں سنتی۔ ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں ہزاروں اہلیان کرم کو چن چن کر اٹھایا گیا اور مہینوں تک پابند سلاسل رکھ کر ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا اور کروڑوں اربوں روپے کے کاروبار سے محروم کرکے وطن بھیج دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ نو سال پہلے بھی ہزاروں اہلیان کرم کو زیرو ٹو 02 کے نام پر ملک بدر کیا گیا اور انہیں کروڑوں اربوں کے کاروبار سے محروم کرایا گیا۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے اپنے شہریوں کی خاطر ابوظہبی سرکار سے کبھی شکایت تک نہیں کی۔ ان کی اس پرانی بے حسی کو دیکھ کر نو سال بعد اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اہلیان کرم کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے۔ پاکستان کا قصور ایک تو یہی ہے کہ اس نے اپنے شہریوں کی خیریت دریافت نہیں کی۔ حالانکہ دنیا کا کوئی چھوٹا سا ملک بھی اس طرح کی غفلت اور بے حسی نہیں دکھائے گا۔ ملک کے حکمرانوں کی دوسری غلطی یہ ہے کہ مسلم امت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوراً بعد پاکستان نے امارات کے ساتھ نئے نئے اگریمنٹ کئے۔ اسی وجہ سے اسے شہہ مل گئی کہ اب اس کے شہریوں کے ساتھ جو بھی سلوک کیا جائے، پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔

اہلیان کرم کی ملک کے اندر اور باہر اغوا کی کارروائیاں
اہلیان کرم کو بلا کسی وجہ کے اٹھا کر لاپتہ کرایا جاتا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے ان پر ایف آئی آر کاٹی جاتی ہیں، تاکہ اپنے جائز مطالبات سے ان کی توجہ ہٹا کر ایسے ہی خود ساختہ امور میں پھنسایا جائے۔ چند ہفتے قبل پیواڑ صحرا کلی کے ایک شخص جو حال ہی میں ابوظہبی سے آیا تھا، کو اپنی 80 سالہ بیمار والدہ سمیت اٹھایا گیا اور اس کی بیمار والدہ کو فوجی ہیڈ کوارٹر سے پیدل گھر بھیجدیا گیا۔ مذکورہ شخص کی گاڑی کو بھی بغیر کسی وجہ کے چھین لیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دن بعد مجلس علمائے اہلبیت کے رہنما علامہ احمد علی روحانی کے کمسن اور طالب علم بیٹے حسن روحانی کو پشاور سے آتے ہوئے متنی کے علاقے میں گاڑی سے اتار کر نامعلوم مقام پر پہنچایا گیا۔

خیال رہے کہ حسن روحانی کا ایک بھائی علی روحانی دو ماہ سے ابو ظہبی میں گرفتار ہوکر لاپتہ ہوچکا ہے۔ اس کا جرم فقط یہ ہے کہ وہ قانونی طور پر زائرین کو حج، عمرہ، قم، کربلا اور نجف لے جاتا ہے۔ یعنی وہ قافلہ سالار ہے۔ حکومت پاکستان پتہ نہیں کس درد کی دوا ہے، بلکہ خدا کی اس پر ایک خصوصی عنایت یہ بھی ہے کہ 73 سالہ تاریخ میں اس نے کبھی ایک دن کے لئے بھی آزاد زندگی نہیں گزاری۔ زندگی کے اکثر ایام امریکہ کی غلامی میں گزارے یا عربوں خصوصاً سعودی عرب کی غلامی میں۔ باس اسے اگر کھانا کھانے سے منع کرے، تو مہینوں فاقے کرنے کا ریکارڈ توڑ دے گا۔ بس اللہ ہی سے دعا ہے کہ ہمارے ملک خصوصاً ہمارے حال پر وہ خصوصی رحم فرمائے، آمین۔
خبر کا کوڈ : 903906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش