0
Sunday 27 Dec 2020 22:54

اسرائیل کے خلاف قراردادوں کی بھرمار لیکن

اسرائیل کے خلاف قراردادوں کی بھرمار لیکن
اداریہ
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں تجزیہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی ریاست کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتنی قراردادیں منظور نہیں کی ہیں، جتنی غاصب صیہونی ریاست کے خلاف اس عالمی ادارے نے منظور کی ہیں۔ رواں سال 2020ء میں اقوام متحدہ نے مختلف موضوعات پر سترہ مختلف قراردادیں منظور کی گئی ہیں، جن میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت یا ان پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ ان قراردادوں میں اسرائیل کی طرف سے تین ملکوں لبنان، شام اور مقبوضہ فلسطین کے خلاف انجام پانے والے غیر قانونی اقدامات پر یو این او نے مختلف مواقع پر قراردادیں منظور کی ہیں۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تو تھوک کے حساب سے غاصب اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کر لیتی ہے، لیکن دوسری طرف اقوام متحدہ کا ادارہ سکیورٹی کونسل اس غاصب حکومت کے غیر انسانی اور غیر قانونی اقدامات پر کسی طرح کی قرارداد پاس نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اسرائیل کے خلاف قرادادیں منظور کرتی ہے لیکن چونکہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے حوالے سے یہ عالمی ادارہ کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتا، لہذا یہ قراردادیں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔ دوسری طرف سکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی قانونی ضمانت موجود ہے۔

اس لیے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سامنے آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی اکثریت کے فیصلے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل میں پانچ ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے، جب تک یہ استبدادی نظام باقی رہتا ہے، سلامتی کونسل تمام دنیا کے رکن ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی کے فیصلوں کو سرد خانے میں یا ردی کی ٹوکری میں ڈالتی رہے گی۔ سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق ایک ایسا ہتھیار ہے، جسے ہمیشہ مسلمانوں اور مظلوموں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 906549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش